DKQ Last Episode (Season1)




دل_کردیا_قربان❤

آخری_قسط_حصہ_اول

رائٹر

عین_فاطمہ

Do not copy my content without my permission. 

_______________________________

"مام....... مام واٹ ہیپنڈ؟ " صبح کی نماز پڑھنے کے لان سے چہل قدمی کر کے گھر کے اندر آتی پریہا نے ڈاکٹر مدیحہ کو لاؤنج میں روتے دیکھ پریشانی سے  استفسار کیا۔

" پری......نجانے کیوں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔

آئی ایم مسنگ تراب بیڈلی ۔۔۔ پتا نہیں وہ کیسے ہونگے.... اسد بھی فون نہیں اٹھا رہے۔"  وہ بھرائے ہوئے لہجے میں کہتی اس کی خاکی یونیفارم میں ملبوس خوبرو تصویر اپنے سینے سے لگا گئیں تھی۔

"مما پلیز ۔۔۔۔۔۔ ڈونٹ کرائے، جسٹ پرے فار ہِم........ ہی ول بی فائن۔" پریہا نے اُن کے آنسو صاف کرتے محبت سے التجا کی تھی اور خود اداس چہرہ لئے بھائی کی تصویر تکنے لگی تھی۔۔

" سچ بتاؤں تو ......... میں بھی بھیا کو بہت مس کر رہی ہوں مام! کتنے دن ہوگئے اُن کی آواز سنے، اُم کے منہ سے اپنا نام سنے ۔۔۔۔۔ اُن کی محبت محسوس کئے ۔۔ وہ کب آئیں گے مام؟ 

بھیا نن....نے کہا تھا کہ میری کانوکیشن پہ میرے ساتھ چلیں گے۔" وہ بھائی کی تصویر پر پل پل آنسو گراتے کھوئے ہوئے لہجے میں بول رہی تھی۔ 

" آئی ایم مِسنگ یو ٹو بھیا ۔۔۔۔۔۔ "

" میری جان ۔۔۔۔۔۔ بی اسٹرونگ! " ڈاکٹر مدیحہ نے پری کو گلے سے لگا کر سر پہ بوسہ دیا تھا۔ 

" ان شاءﷲ وہ جلد آئیں گے ۔۔ بی بریو مائے پرنسس ۔" 

" ان شاءﷲ ......"  آپ کو پتا ہے بھیا نے جاتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ آپ کا بہت خیال رکھوں ۔۔ اور دیکھیں میں خود رونے بیٹھ گئی ہوں ۔۔۔" 

 وہ ماں کی خاطر اپنے جذبات کا گلہ گھوٹتی آنسو صاف کرتے مسکراتے ہوئے کہنے لگی نظریں اب بھی بھائی کی تصویر پہ جمی ہوئی تھیں ۔ 

" کیا میرے بیٹے کے حُسن کو نظر لگانے کا ارادہ ہے؟  "ڈاکٹر مدیحہ نے شرارت سے کہتے اسے چھیڑا تھا۔

" بھائیوں کو بہنوں کی صرف دعائیں لگتی ہیں نظریں نہیں اور  میں آپ کے شہزادے سے زیادہ پیاری ہوں ۔۔۔۔۔۔" پری نے ہنستے ہوئے تراب کا جملہ ہی دہرایا تھا۔ 

اس بات میں کوئی شک نہ تھا کہ اس  یونیفارم میں اُسے اپنے باپ اور جواد سے زیادہ اپنا بڑا بھائی زیادہ خوبرو لگتا تھا۔ 

" آہ آئی سی...... ویسے زرا آپ اپنے بھیا کو چھوڑ کر میرے بھتیجے پر بھی نظرِ کرم کر لیا کیجیئے ۔۔۔۔ وہ بھی اس وردی میں کچھ کم ہینڈسم نہیں لگتے ۔" 

" مام ۔۔۔۔۔آپ مجھے تنگ کر رہی ہیں۔ میں بھیا اور بابا سے شکایت کروں گی۔"  پریہا کے گال حیا سے دہکنے لگے تھے۔ وہ شرمندہ ہوکر نروٹھے پن سے کہتی سر جھکا گئی تھی۔ 

" ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔ مائے کیوٹی، ڈونٹ فیل شائے! جواد از ناٹ ہئیر۔"  ویسے جوکس آپارٹ لاسٹ ٹائم بھی جواد آپ کا پوچھ رہے تھے، بٹ آپ اس وقت ہاسپٹل میں تھیں۔ 

" رئیلی؟  "  پریہا نے جواد کو اپنے بارے میں استفسار کرنے کا سن کر حیرانی سے سر اٹھایا تھا۔ 

جب کہ ماں کے اس کے اِس حیرت کے تاثر پہ آئبرو چڑھانے پر وہ اپنا نچلا لب دانتوں میں دباتی وہاں سے اٹھ بھاگی تھی۔

کہنے کو وہ اس کا فرسٹ کزن تھا، جس کا بچپن سے ہی اُن کے گھر میں آنا جانا  معمول تھا۔   

مگر مجال تھی کہ کبھی اُس نے پری سے کوئی فرینکنس کا مظاہرہ کیا ہو یا تراب کی طرح اس سے بات کی ہو ۔۔۔

اُن دونوں میں ہمیشہ سے ہی ایک سرد مہری کی دیوار قائم تھی۔ 

مگر اس کے باوجود بھی جواد نا محسوس انداز میں بالکل تراب کی طرح اس کا خیال کرتا اور رکھتا تھا۔

وہ ایک ٹھنڈے مزاج کا سمجھدار اور نہایت ہی سلجھا ہوا انسان تھا۔

پریہا اور اس میں تقریباً سات سالوں کا فرق تھا۔ 

تراب کی غیر موجودگی میں پریہا ہمیشہ ہی اس کی ذمہ داری ہوتی تھی۔۔ جسے وہ پورے دل و ایمان سے نبھاتا تھا۔

اس کے برعکس پریہا کو جواد سے عجیب سا جذبہ لاحق ہو چکا تھا۔ 

جواد کا تراب کے ساتھ اتنا فرینک ہونا جبکہ پریہا کو بالکل ایوایڈ کرنا اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ 

اُسے جواد سے ڈر بھی لگتا تھا۔ اُن دونوں نے کئی سفر ساتھ گزارتے ہوئے بھی کبھی اپنے بیچ موجود اجنبیت کی دیوار کو گرانے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔

ایک فاصلہ ہمیشہ ان کے درمیان رہتا تھا۔

 گو کہ یہ بھی سچ تھاکہ اگر جواد اسے مخاطب نہیں کرتا تھا تو وہ بھی نہیں کرتی تھی مگر نجانے کیوں دل ہر بار اسے اپنے سامنے دیکھ کر اس کی آواز سنے کی خواہش کرنے لگتا تھا۔ 

لیکن اس کے ماں باپ کی کی ہوئی تربیت اور شرم و حیا ہمیشہ جیت جاتی تھی۔ 

جب سے جواد پاس آؤٹ ہوکر گھر آیا تھا پریہا اس کے سامنے آنے سے بھی گریز برتنے لگی تھی۔ 

وہ محض اٹھارہ سال کی تھی جب ایک دن اس کے چاچو کی وزیرستان پوسٹنگ کے دوران ان پر حملہ کیا گیا ۔۔ وہ بہت زخمی تھے۔  ان کی گردن میں ایک اور سینے اور بازوں پر تین گولیاں لگی تھیں ۔۔ 

جواد ان دنوں اپنے کسی کورس ٹریننگ میں مصروف تھا۔ 

اور تراب بارڈر پر ڈیوٹی سر انجام دینے گیا ہوا تھا۔ 

کرنل اسد اپنے چھوٹے بھائی کی خبر سنتے فوراً جی ایچ کیو سے میٹنگ چھوڑ کر ہیلی کاپٹر میں ارجنٹ روانہ ہوئے تھے۔ 

جواد اور تراب کو بھی ارجنٹ آرڈر پہ اسپیشل آف دلوا کر سی ایم ایچ پہنچنے کا حکم دیا تھا۔ 

پری، ڈاکٹر مدیحہ کو لیکر ارجنٹ فلائٹ سے پشاور پہنچی تھی۔ 

سمائراہ اور وجاہت شاہ بھی اُن کے ساتھ موجود تھے۔ البتہ وجاہت شاہ کا بیٹا صفدر شاہ اپنی ڈیوٹی انجام دینے بلوچستان رجمنٹ میں تعینات تھا۔

جواد کی ماں تو اس کے بچپن میں ہی اسے اکیلا چھوڑ کر دارِ فانی سے کوچ کر گئیں تھی۔۔ تب سے لیکر آج تک اسے ڈاکٹر مدیحہ اور کرنل اسد نے اپنے بیٹے کی طرح پالا تھا۔

مگر اُس دن میجر علی حیدر نے بھی اُسے بالکل تنہا چھوڑ کر شہادت کو گلے سے لگالیا تھا۔ 

اُنہوں نے اپنی آخری اکھڑتی سانسوں میں کرنل اسد، تراب اور جواد کے آگے اپنے بھائی سے روتے ہوئے جواد کے لیے پریہا کا ہاتھ مانگا تھا۔

جبکہ ان کی تکلیف سے نکلتی آہیں، جسم سے ابلتا خون  کرنل اسد کی کمر توڑ گیا تھا۔ 

اپنے جان سے پیارے چھوٹے بھائی کو اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے دیکھنا پلِ صراط پہ چلنے کے مثل تھا۔ 

جبکہ دوسری طرف تراب اور جواد دونوں ہی پتھر بنے کھڑے تھے۔

اُن کی ضبط سے سرخ آنکھوں میں فقط دشمن کو اس سر زمین سے مٹانے کا عزم چھلک رہا تھا۔ 

باپ کو من و مٹی تلے دبانے کے بعد وہ دونوں ہی واپس اپنی اپنی ڈیوٹی پر لوٹ چکے تھے۔ 

اگلی چھٹیاں انہیں تقریباً چار ماہ بعد ملی تھیں ۔۔۔

جب سمائراہ اور پریہا میڈیکل کالج میں داخلے کی تیاریوں میں مگن تھیں۔

ایسے میں جواد کرنل اسد اور ڈاکٹر مدیحہ نے میجر علی حیدر نقوی کی خواہش پر جواد اور پریہا کا نکاح کرنے کا فیصد لیا تھا۔ 

پریہا کو جب اس فیصلے سے مطلع کیا گیا تو وہ اندر ہی اندر ڈرنے لگی تھی۔

جواد کا ریزرو بیہیوئیر اسے یہ اخذ کرنے پر مجبور کرگیا تھا کہ وہ اسے ناپسند کرتا ہے۔ 

مگر اب یہ سب اچانک اتنی جلدی طے ہوا تھا کہ وہ چاہ کر بھی ماں باپ سے اپنے دل کی بات نہیں کہہ سکتی تھی۔

اور یوں پریہا کے دل میں پنپنے والی انجانی خواہش اب حقوق کی منزل طے کر گئی تھی۔ 

اس نے اپنی زندگی اپنے ماں باپ اور بھائی کی مرضی و رضا سے جواد کے نام منسوب کردی تھی۔۔ 

لیکن دل میں کو جواد لیکر سو خدشات لاحق تھے۔۔

وہ بھی تراب کی طرح کافی ریزرو رہا کرتا تھا، جس سے اس کے دل کا حال جانچنا ناممکنات میں سے تھا۔ 

اس کو یہ بات کافی بے چین کئے ہوئے تھی کہ نجانے جواد اُس کے ساتھ کس طرح پیش آئے گا جبکہ آج تک اُن دونوں نے ہی ایک دوسرے سے بات کرنے میں اجتناب برتا تھا۔

نکاح کی رات جب وہ پہلی بار پری سے ملنے اس کے کمرے میں آیا تو اس کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے۔ 

وہ جس نے کبھی کزن کے رشتے سے بات نہیں کی تھی اب اس کے مزاجی خدا ہونے کی حیثیت سے سفید کلف دار قمیص شلوار میں اپنی تمام تر وجاہت اور جاذبیت کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھا۔ 

"او ہیرو جلدی کرو! پانچ منٹ سے زیادہ اپنی پری سے بات کرنے کی اجازت نہیں دوں گا اور ہاں میری بہن پہ رعب جمانے کی غلطی ہرگز مت کرنا ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " دروازے پر ایستادہ تراب مصنوعی آنکھیں دکھاتے شرارت سے اسے چھیڑ رہا تھا جبکہ جواد نے نفی میں سر ہلاتے بمشکل اپنی  مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے اس کے منہ پر دروازہ بند کیا تھا، جس پر پریہا کا دل اسقدر زور سے دھڑکنے لگا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔

وہ مڑا تو پری نے بمشکل اپنا سوکھا حلق تر کرتے اسے سلام کیا۔

خوف کے باعث ماتھے پر جگمگاتی پسینے کی ننھی بوندیں، لہجے میں چھپی کپکپاہٹ اور حیا کے باعث عارضوں پر بکھرا گلال مقابل سے چھپائے نا چھپ سکا تھا۔ 

سفید قمیص شلوار پر سُرخ ڈوپٹہ اوڑھے، ہاتھوں میں سرخ چوڑیاں، چہرے پر ہلکا سا میک اپ اور ناک میں نتھ پہنے جو اس کے گلابی لبوں کو چوم رہی تھی، وہ کسی شہزادی سے کم حِسین نہیں لگ رہی تھی۔ 

جواد نے اُسے ایک نظر سر تا پاؤں دیکھتے انتہائی نرمی سے کہا۔

" وعلیکم السلام پریہا! ریلیکس یور سلیف فرسٹ..... پلیز بیٹھیں ! " اُس لہجے میں موجود نرمی، احترام اور تحفظ کا انجانا احساس محسوس کرتے اس کی غیر معمولی رفتار سے دوڑتی دھڑکن چند ساعتیں رک سی گئی تھیں ۔۔ وہ خم بار پلکوں کا گھنا جھالر سنہری آنکھوں سے اٹھاتی اسے معصومیت سے دیکھنے لگی۔

اس کے منہ سے اپنا نام سننے کا خوبصورت احساس ہی اتنا محسور کن تھا جو اس کے دل میں موجود خوف کو کہیں دور سلا آیا تھا۔

وہ جھجھکتی ہوئی، پسینے سے تر ہتھیلیوں میں اپنے ناخن گاڑتی ہوئی بیڈ پر بیٹھی ۔۔۔ 

جبکہ جواد اس کے سامنے آکر گھٹنوں کے بل دبیز قالین پر بیٹھا تھا۔ 

جواد کو اس طرح نیچے بیٹھتے وہ گھبرا کر اسے اوپر بیٹھنے کا کہتی اٹھنے لگی تھی مگر جواد نے اسے واپس ہاتھ سے پکڑ کر وہاں بٹھایا تھا۔ 

" ڈونٹ موو !" 

پریہا نے اپنا ہاتھ اس کے گرفت میں قید دیکھ تھوک نگلا تھا اور خود پر ضبط کرتی نظریں جھکائے بیٹھ گئی تھی۔ 

" ویسے تو آپ کی نظریں اس تصویر سے ہٹتی نہیں ہیں ...... آج جب سامنے ہوں تو آپ مجھے دیکھنے سے گریز کر رہی ہیں۔"  جواد نے سائیڈ ٹیبل سے پری کا فون اٹھا کر دیکھتے سادگی سے کہا جس میں اس کی اور تراب کی بہت پیاری تصویر لاک اسکرین ڈسپلے پر جگمگا رہی تھی۔ 

یہ تصویر اس دن کی تھی جب وہ دونوں پی ایم اے سے پاس آؤٹ ہوئے تھے۔ 

تراب نے سورڈ آف آنر ون کیا تھا تو جواد نے بیسٹ کیڈٹ پرفارمنس کا ایوارڈ وِن کیا تھا۔

یہ پکچر پریہا نے اپنے سیل فون سے کلک کی تھی اور تب سے یہ اس کے فون کے لاک اسکرین کی زینت بنی ہوئی تھی۔۔ 

جواد کے اس طرح ڈائریکٹلی کہنے پر پریہا یکدم بوکھلا گئی تھی۔

" نن..... نہیں میں آپ کو نہیں دیکھتی تھی، یہ تو بھیا کی لگائی تھی...... اس میں آا..... آپ بھی آگئے۔" اہانت سے سرخ چہرہ لئے وہ فوراً صفائی میں آہستگی سے بولی تھی جبکہ جواد اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں سے خاصا محظوظ ہوا تھا۔ 

پ

" آہ! آئی سی ۔۔۔۔۔۔" جواد نے مسکراہٹ ضبط کر کے تائید میں سر ہلایا اور اس کے فون کا لاک کھولنے لگا۔ 

جبکہ پریہا کے اس بار سہی معنوں میں طوطے اڑے تھے کیونکہ اس کے موبائل کے وال پیپر  پر جواد کی سنگل تصویر موجود تھی جو اس نے نجانے کب اپنے کیمرے میں قید کی تھی اور مما کے ان کے نکاح کے بتانے پر اس نے کل ہی اسے وال پیپر سیٹ کیا تھا۔

" نن.... نہیں پلیز جواد ۔۔۔۔۔"  وہ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے والے کبوتر کی مانند سختی سے آنکھیں میچ گئی تھیں ۔

جواد نے اس کی منمناہٹ پر دلکشی سے مسکراتے جو اس کا چہرہ دیکھا تو پلکیں جھپکنا بھول چکا تھا ۔

اُس کے منہ سے پہلی مرتبہ اپنا نام سُن کر وہ گنگ رہ گیا تھا۔

ماں باپ کی خوبصورتی کے امتزاج سے بنے تیکھے نقوش والی وہ ناز نخروں کی پلی لڑکی جس کو آج تک اُس نے احتراماً، کبھی نظر بھر کر نہیں دیکھا تھا۔۔

 آج وہ اس کی نکاح میں تمام تر حقوق کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھی۔۔ 

 آج وہ پورے حق کے ساتھ وارفتگی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ 

وہ اس کی محرم تھی، اس کی تنہا زندگی کی ساتھی ۔۔۔۔ جس سنگ وہ اپنی حیات کا سفر طے کرنے کا وعدہ کرکے آیا تھا۔ 

جس پہ وہ اپنا ہر جذبہ لٹا دینا چاہتا تھا۔

اس کے دل میں پری کی قید محبت اب ہر زنجیر سے آزاد ہوچکی تھی، جسے وہ دل کے کسی گوشے میں محفوظ کئے ہمیشہ اس سے روگردانی برتتا تھا۔ 

وہ اس کے گھر کی عزت تھی، وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ بنا کسی رشتے کہ وہ یا پری ایک دوسرے سے فرینک ہوں ۔۔

وہ بھلے کزنز تھے پھر ایک دوسرے کے لیے نامحرم تھے ۔۔ 

جواد اور پری دونوں ہی اپنے گھر کی تربیت اور اپنی حدود سے بہت اچھی طرح واقف تھے ۔

"ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ میرے فون کے وال پیپر پہ بھی ہم دونوں کی ایک عدد تازی تصویر ہونی چاہیے۔۔۔" وہ بڑے آرام سے اس کے قریب جھک کر سرگوشی نما کہتا موبائل-فون نکال چکا تھا جبکہ پری نے اس کی قربت پر پٹ سے اپنی آنکھیں کھول کے دیکھا تھا۔ 

اور ادھر جواد نے مسکراتے ہوئے کیمرے کی طرف دیکھتے کلک کیا تھا۔ 

تصویر کچھ اسطرح سے بنی تھی کہ پری جواد کو اور جواد کیمرے میں دیکھ رہا تھا۔ 

" مانا کہ میں کیوٹ ہوں پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مجھ سے نظریں ہی نا ہٹائیں پریہا زہرا ۔"  اس نے پری کے برابر بیٹھتے مزے سے کہا تو وہ فوراً سے نظریں جھکا گئی ۔۔ 

پری کی اب بس ہوچکی تھی، ایک تو پہلے ہی وہ اتنا گھبرائی ہوئی تھی اوپر سے جواد کا اس کے فون پر اپنی تصاویر دیکھنا اور اب اس کے ساتھ تصویر لیکر یہ سب کہنا اسے مزید پانی پانی کر گیا تھا۔ 

نتیجتاً آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں اور موتی گالوں پر بکھر گئے تھے۔ 

" پری....... آپ رو کیوں رہی ہیں؟  واٹ ہیپنڈ؟  " اس کے ہاتھ پر آنسو گرتے دیکھ جواد سنجیدہ ہوا تھا۔

"ہئے لُک ایٹ می ۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری ، آئی واز کڈننگ ۔"  وہ عاجزانہ انداز میں کہتے پھر اس کے گھٹنوں میں جا بیٹھا تھا اور اس کے سفید نرم ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں قید کئے اپنا نچلا لب دانتوں تلے دبائے خود پر چار حرف بھیج گیا تھا۔

" آپ نے رونا بند نہیں کیا تو آپ کا  سر پھرا بھائی میری چٹنی بنا دے گا ۔ " اس نے اسے ہنوز روتا دیکھ التجا کی تھی۔

" آئی...... ایم..... سوری ۔"  وہ آہیں بھرتی  سر جھکائے بولی تھی۔ 

" سوری فار واٹ ؟ " میں بس آپ کو تنگ کررہا تھا بیوقوف لڑکی اور میری نہیں تو اور کس کی پکچر لگائیں گی آپ؟ "

" آپ........ آپ نجانے میرے بارے میں کیا سوچ................. " وہ لب کچلتے روہانسی ہوگئی تھی۔

"شششش........ آپ نے مجھے اتنا اسٹوپڈ سمجھا ہوا ہے ؟" جواد نے اسے ٹوکتے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔

جبکہ اس کے تاثرات بدلتے دیکھ وہ نفی میں سر ہلانے لگی تھی ۔

" مم... میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ "

" تو پھر کیا مطلب تھا آپ کا محترمہ؟  " وہ سینے پر دونوں ہاتھ بانٹتے اب دیوار سے لگ کر کھڑا ہو چکا تھا۔ 

" مم..... میں جانتی ہوں.... یو ڈونٹ لائک.... می۔۔" اس کے آنسوؤں میں جملہ ادا کرتے مزید روانی آئک تھی جبکہ جواد بس نظریں گھما کر رہ گیا تھا۔ 

"اچھا ........" اس اچھا کو کافی لمبا کھینچتے ہوئے پوچھا 

"آپ کو اتنا عظیم انکشاف کب ہوا پریہا زہرا؟"

جواد واپس اس کے پاس آکر بیٹھا تھا۔

وہ خاموش بیٹھی ہنوز اپنے مہندی سے سجے ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔

" لک ایٹ می پری........" اس کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔

وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی، جواد نے اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کئے۔ 

" مانا کہ روتے ہوئے آپ کافی حَسین لگتی ہیں، لیکن مجھ جیسا رحمدل انسان یہ حَسین منظر دیکھنے کے لئے آپ کو تکلیف میں نہیں دے سکتا۔۔۔ اس لیے پلیز رونا بند کریں ورنہ سب کو لگے گا کہ نکاح کے تحفے میں، میں نے آپ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں ۔ 

اور رہی بات کہ  میں آپ کے بارے میں کیا سوچتا ہوں تو ........... یہ آپ کو اُس دن پتا چلے گا جب آپ میرے سامنے یہ ڈرا سہما روپ لئے ٹین ایجر بن کر نہیں بلکہ اپنی مام کی طرح ایک کانفیڈنٹ اور اسٹرانگ ڈاکٹر بن کر پورے حق کے ساتھ میرے گھر آئیں گی۔۔ 

تب میں آپ کو میری آپ سے بات نا کرنے کی وجہ سے لیکر میری آپ سے اس گفتگو تک آپ کے ہر شکوے، ہر بات کا جواز دوں گا اور آپ کی اس ذہن میں سمائی عظیم سوچ کو بھی نکال دوں گا۔ " 

جانتی ہیں مجھ میں اور تراب میں ایک چیز بہت کامن ہے پری.......... ہم دونوں ہی گھما پھرا کر باتیں کرنے کے عادی نہیں ہیں ۔

وہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لئے بے حد نرمی اور تحمل سے کہہ رہا تھا۔ 

اس کے لہجے کی مٹھاس پریہا کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ 

وہ حق دق سی اُسے تک رہی تھی ۔۔۔

" تو میں آپ کو صاف لفظوں میں بتانا چاہوں گا کہ اب آپ میرے نکاح میں ہیں اور جتنا حق میرا آپ پر ہے اتنا ہی حق آپ کا مجھ پر ہے پریہا میڈم ۔۔۔

 اپنے ذہن سے یہ بات نکال دیجیے کہ میں آپ پر کوئی پابندی عائد کروں گا ۔۔۔ یا میں آپ کو اہمیت نہیں دوں گا۔

آپ اپنے گھر والوں کے لیے چھوٹی ہیں پر ہمارے درمیان قائم رشتے میں ایج میٹر نہیں کرتی۔۔

آپ کی اہمیت میرے دین اور میرے فرض کے بعد سب سے زیادہ ہے پری اور جب تک زندہ ہوں ہمیشہ رہے گی۔ 

اور مجھے اُس دن کا شدت سے انتظار رہے گا جب میری بیوقوف منکوحہ ایک عقلمند ڈاکٹر پلس بیوی بن کر میرے سامنے موجود ہوں گی ۔"  وہ تبسم لبوں پر لئے اپنی بات مکمل کر کے اس کے ہاتھ کی پشت کو محبت سے چوم گیا تھا۔ 

جبکہ پریہا اپنے حیا سے گلابی ہوتے عارضوں پر پلکوں کا چلمن گرا گئی تھی۔ 

وہ دلکشی سے مسکراتے اُسے نظر بھر کر دیکھنے لگا تھا، جیسے جانے سے پہلے ہر نقش اپنے دل میں ازبر کرلینا چاہتا ہو۔۔ 

اُن دونوں کو ہی کل واپس اپنے اپنے یونٹ جانا تھا۔ 

" نکاح مبارک انوسینٹ بیوٹی۔ " آنکھوں میں جذبات کا سمندر لئے اس نے پریہا کے گلے میں پینڈنٹ پہناتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی نما کہا تھا۔

" آپ کو بھی ۔۔۔ "  شیشے میں موجود اپنا اور جواد کا عکس دیکھ کر بالآخر پریہا صاحبہ نے شرمگیں مسکراہٹ سجائے اپنے لب وا کئے تھے۔ 

جو جواد کو اندر تک سرشار کر گئے تھے۔

ابھیوہ اسے اپنے حصار میں قید کرنے کو ہی تھا جب دروازے کے باہر سے پانچ منٹ  چالیس سیکنڈز کی کڑک دار  آواز سنتے وہ دونوں چونکے تھے۔ 

جواد نے دانت پیس کر زبردستی کی مسکراہٹ لبوں پر سجائے دروازہ کھول کر تراب کو تیکھی نظروں سے دیکھا تھا جو اسے دھکا دیکر پری کو سینے سے لگا چکا تھا۔

" مائے پرنسس ۔۔ڈڈ ہی اسکیرڈ یو؟ " تراب نے جواد کو گھورتے ہوئے پری سے پوچھا تو وہ خود اسے دیکھی تیزی سے نفی میں سر ہلا گئی تھی۔

تراب نے محبت سے اُس کے ماتھے پر پیار کیا۔

" سالے تجھے تو بعد میں دیکھوں گا ۔" جواد نے پری کو اس سے چپکے دیکھ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے جتایا تھا جبکہ تراب باوجود کوشش کے بھی اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے سے قاصر رہا تھا اور اس کے گالوں میں پڑھنے والے گڑھوں کھل کر اپنا دیدار کروایا تھا۔

             *******💕💕💕******

" آئی مس یو جواد ۔۔۔۔۔ بب... بہت یاد آتی ہے آپ کی۔۔۔۔۔ پلیز واپس آجائیں ۔۔ دیکھیں آپ کی پری اب ڈاکٹر بھی بن گئی اور سمجھدار بھی ہوگئی۔ " وہ موبائل اسکرین پر اپنی اور جواد کی اُسی پکچر کو دیکھتے اداسی سے بول رہی تھی۔ 

نجانے کیوں مگر دل تو اس کا بھی بہت گھبرا رہا تھا۔ 

ایک طرف بھائی تھا تو دوسری طرف شوہر ۔۔۔۔۔۔ 

 دونوں ہی اپنے رشتوں کو قربان کئے اپنی مٹی کی خاطر نجانے کتنی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔ 

دوسری طرف ڈاکٹر مدیحہ بھی جو آنسو اپنی بیٹی کی وجہ سے روک گئیں تھی اب وہ تواتر بہہ رہے تھے ۔

اُن کے کانوں میں تراب کی وہ الفاظ گونج رہے تھے جو جاتے وقت اس نے ماں سے کہے تھے ۔۔

"آپ کی دعائیں جب تک میرے ساتھ ہیں، کامیابی میرا مقدر ہے مام، باقی پروردگار کی مرضی ۔۔۔۔

اگر میں نہیں لوٹا تو رونا مت ..... بلکہ فخر کرنا کہ آپ ایک شہید کی ماں کہلائی جائیں گی۔۔۔

 اور اگر لوٹ آیا تو آئی پرامس اگلے ایک مہینے تک آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔" 

" آپ نہیں جانتے ہیں تراب...... ایک فوجی کی ماں ہونا کتنا مشکل ہوتا ہے ۔۔ یہ اذیت ناک انتظار اندر ہی اندر ایک ماں کو بے چین کئے رکھتا ہے ۔"  وہ اس کی تصویر سینے سے لگائے اپنے مجروح جذبات کی عکاسی کر رہی تھیں ۔

" وہ بیٹا جس کو محبت اور پیار سے بچپن سے لیکر ناز و نخروں سے پالا ہو، تعلیم یافتہ کروایا ہو، اخلاق و کردار کی ایک شاندار عمارت کھڑی کی ہو، اُس کو یوں موت کے منہ میں بھیج دینا بظاہر تو بہت معمولی ہوتا ہے مگر ایک ماں کے لیے اپنے لختِ جگر سے دوری کا یہ غم بہت کٹھن ہوتا ہے ۔

مجھے فخر ہے آپ پر، آپ کے عزم، جواں مردی اور جذبہ ایمانی پر ۔۔۔۔۔۔ آپ اور آپ جیسے ہزاروں ماؤں کے بہادر جوانوں پر ۔۔۔۔ 

جانتے ہیں جس روز آپ پی ایم اے سے سورڈ ون کر کے آئے تھے آپ کے بابا اور میرا سر فخر سے کتنا بلند ہوگیا تھا ۔۔

مجھے فخر ہے میری جان! کہ میرے بیٹے کو فوج کے منجھے ہوئے افسروں نے جانچا، پرکھا اور اپنے معیار پر پورا اترنے والا پاکر اپنے مستقبلِ کا فخر سمجھ کر اپنی چھاتی سے لگالیا ۔۔۔۔

مگر میرے اندر کی مامتا کو ہمہ وقت یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ میرے جیتے جی میرے بیٹے کو موت کی آغوش میں سونا پڑے تراب ۔۔۔ 

آپ جانتے ہیں آپ کو یونیفارم میں دیکھ کر مجھے نہ اپنے دل پہ اختیار رہتا ہے' نہ اپنی آنکھوں پر ۔۔۔ جتنا مرضی آپ کو دیکھ لوں ۔۔ دل نہیں بھرتا۔۔۔آنکھیں نہیں تھکتیں۔۔۔ 

ایک ماں کے دل سے پوچھیں جو اپنا بیٹا، اپنے جگر کا ٹکڑا کاٹ کر اس مٹی کے حوالے کردیتی ہے۔ 

اور آپ جیسے عظیم بیٹے ریگستانوں میں، سنگلاخ پہاڑوں میں، دریائوں میں، جنگلوں میں، برف پوش چوٹیوں پر اپنے دین کی خاطر، اپنے پیارے وطن کے دفاع کی خاطر، اپنے ساتھیوں اور ملک کے ہر فرد کے دفاع کی خاطر اپنی سب محبتیں  چھوڑ کر، ماں، باپ، بہن،بھائی، دوست، مال و دولت ایک طرف رکھ کر اور وطن کی عظمت سب سے مقدم و مقدس جان کر نکل پڑتے ہیں ۔۔

لیکن جہاں ایک ماں کی اپنے بیٹے کو اس وردی میں ملبوس دیکھ نظریں نہیں بھرتی نا تراب......... وہیں دل کو ہر لمحہ ایک دھڑکا بھی لگا رہتا ہے۔

یہ خدشہ بہت اذیت ناک ہوتا ہے تراب کہ کیا اس ماں کی ترستی آنکھیں اپنے بیٹے کو واپس دیکھ پائیں گی یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ "

ان کی آنکھوں سے تواتر آنسو بہہ رہے تھے۔

جب کوئی بیٹا وطن کی پکار پر چلا جاتا ہے۔۔ تو ماں کے دل کا ایک حصہ اس کے ساتھ چلا جاتا ہے اور روح بھی چلی ہی جاتی ہے بس جسم باقی رہ جاتا ہے تراب۔۔۔۔۔۔۔۔ بس جسم!! 

میری دعا ہے خدا آپ کو اور آپ کی ٹیم کو سلامت واپس لوٹائے ۔۔ آپ اپنے مقصد میں سرخرو ہوکر لوٹیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واپس آجائیے میری جان،، واپس آجائیے ۔۔ آپ کی مام آپ کو بہت مِس کر رہی ہے ۔ "  وہ دل گرفتگی سے کہتے اسی فریم پر لب رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں ۔

             ******💕💕💕******

#The_Scene_Dedicated_to_Shaheed_Captain_Basit_Ali❤

سورج کی روشن کرنیں بادلوں سے  نکلتی زمین پر گر رہی تھیں مگر اُن کرنوں میں تپش یا تمازت نہیں تھی۔۔ 

آج موسم کافی ابر آلود تھا ۔۔ اور ہوا بھی معمول سے زیادہ ٹھنڈی تھی اور ٹھٹرا دینے والی تھی۔

گہرے سیاہ  بادلوں کے لکے وادیِ عنبر پر رحمت برسنے کی نوید دے رہے تھے۔۔

 سرد فضا میں خوبصورت سُر بکھیرتے چرند پرند حصولِ رزق کے لیے اپنی منزلوں پر جانے پروان بھر چکے تھے۔

مگر اسقدر دلفریب اور خوشگوار موسم ہونے کے باوجود بھی ماحول کافی پراسرار تھا۔ 

نجانے کیوں آسمان پر چھائی  گہرے بادلوں کی سیاہی آج سورج کی کرنوں کو اپنے پسِ پشت دھکیلتی زمین کو تاریک کرنے پر بضد تھی۔۔۔۔

پہاڑوں سے دیاروں میں گرتے جھرنوں کا شور سنسان علاقے میں گونج رہا تھا۔ 

اس سورج اور بادلوں لے جاری کھیل میں تیراہ سے لیکر وادی عنبر سے متصل شاہراہ پر سپہ سالار میجر زاہد کے انڈر کیپٹن باسط علی کے ہمراہ چھ جوان وادی تیراہ کے اس مقام تک رسائی حاصل کر چکے تھے جہاں سے دشمنوں کے گزرنے کا پلان تھا۔  

ابھی اُنہیں پہنچے کچھ پل ہی گزرے تھے کہ اس راہ گزر سے قطار در قطار ٹرکوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔۔ 

وہاں موجود جوانوں نے سامنے آکر اُن ٹرکوں کو فوری رکنے کا حکم دیا ۔۔ 

پہلے ٹرک میں براجمان نقیب اللہ صبح صبح چوکی پر اچانک ہتھیاروں سے لیس جوانوں کو موجودہ دیکھ یکدم بوکھلا گیا اور وائرلیس پر حملہ کرنے کا پیغام دیتے ہوئے اپنی بندوں نکال کر دھنا دھن فائرنگ شروع کردی ۔۔

صبح کا پر امن ماحول لمحوں میں وحشتناک ماحول میں تبدیل ہو چکا تھا۔ 

گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنسان فضا میں زوروشور سے جاری تھی۔ 

مگر ان ہی گولیوں کی بوچھاڑ میں جوانوں کے حوصلے قابلِ دید تھے جو دشمنوں کو دھول چٹانے کا عزم لئے مصروفِ جنگ تھے۔۔

دونوں جانب سے بھرپور مقابلہ جاری تھا۔ 

جوانوں کا ٹارگٹ اُن دہشتگردوں سمیت اُن ٹرکوں کو ضبط کرنا تھا جس میں اسلحہ اور بارودی مواد منتقل کیا جا رہا تھا۔ 

دہشتگردوں کے کافی ساتھی مارے گئے تھے، کچھ اطراف علاقوں میں جا چھپے فوجیوں پر مستقل فائرنگ کر رہے تھے۔

" سر دو سپاہی زخمی ہوگئے ہیں۔  ایمونیشن ختم ہے، دشمن زیادہ ہیں ۔" کیپٹن باسط نے مقابلے کے دوران ہی او آئی سی کو حالات سے مطلع کیا تھا۔ 

" کیپٹن باسط حوصلہ رکھیں مدد پہنچ رہی ہے۔" جوانوں کے دستے کے ہمراہ تیراہ کے راستے میں موجود میجر زاہد نے کیپٹن باسط کو دلاسہ دیا تھا۔

جب اچانک سامنے سے آتی گولی کیپٹن کے داہنے بازو میں پیوست ہوئی تھی۔

" سر آئی ایم ہٹ ۔۔۔ پلیز جلدی پہنچیں ۔" پہاڑ کی اوٹ میں پناہ لے کر اپنے درد کو نظر انداز کئے دشمنوں پر مسلسل حملہ کرتے ہوئے تین دہشتگردوں کو واصلِ نار کیا ہی تھا جب مشین گن سے نکلنے والی ایک ساتھ دو گولیوں نے ان کے سینے کو اپنا جائے مدفن بنایا تھا۔ 

" سر.... آئی...ایم گون۔۔۔۔۔ "  یہ آخری جملہ کیپٹن باسط کے منہ سے عجیب یاسیت زدہ لہجے میں ادا ہوا تھا اور ان کا رابطہ میجر زاہد سے منقطع ہو چکا تھا۔ 

جبکہ دوسری جانب کیپٹن باسط کو سنے والے تمام افسران کا کلیجہ پھٹ گیا تھا۔

" نو...... نو کیپٹن باسط ۔۔۔۔۔ کیپٹن پلیز  ۔۔" میجر زاہد کے آنکھوں سے بے ساختہ آنسو لڑھک کر گالوں پر پھسل چکے تھے۔ 

آج ایک اور بہادر جوان نے سینے پر گولیاں کھاتے اپنی مٹی کی خاطر جامِ شہادت نوش کر لیا تھا۔ 

‏ایک سربراہ کو کیسے تکلیف نہیں ہوتی جب اسکا کوئی جوان شہید ہوتا ہے!! 

ایک سربراہ کے لئے اسکا ہر جوان بیٹے کی مانند ہوتا ہے اور جب ایک باپ کے سامنے اس کا جوان شہید ہو جائے تو کیسے وہ آفیسر خود کو کنٹرول کرتا ہے یہ بس وہ جانتا ہے یا خدا جانتا ہے۔

اُدھر کرنل اسد نے میجر سکندر حیدر کو رابطے میں رکھ کر تراب کو دہشت گردوں کے خفیہ مقامات کی لوکیشن اپڈیٹ کی تھی۔ جی ایچ کیو میں ریڈ الرٹ جاری تھی ۔۔۔ 

دنیا کے تیز ترین دماغوں کے مالک اس وقت میٹنگ روم میں بیٹھے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کی وادی عنبر میں اترے جوانوں میپنگ کر رہے تھے ۔۔  

 وہ جو دیوانوں کی مانند اُسے پچھلے دو گھنٹے سے ڈھونڈ رہا تھا، لیکن وہ کہیں بھی موجود نہیں تھی۔۔۔ فکر و پریشانی کے تاثرات اس کے چہرے پر نمایاں تھے۔

آنکھوں میں شیر جیسی ہیبت لیے، چہرے پہ دشمنوں کے نجس وجود کے خاتمے کا جذبہ سجائے لوکیشن اپڈیٹس حاصل کرتے ہی وہ لوگ باقاعدہ تشکیل دیے گئے ایمرجنسی پلان پر عمل درآمد کرنے اپنے عزائم کو پورا کرنے نکل پڑے تھے۔

اُدھر ایک اور ملٹری دستہ بھی فضائی راستے وادی عنبر میں اتر چکا تھا جو تمام بستیوں کو کوَر کرنے اپنی اپنی پوزیشن سنبھال چکے تھے ۔۔

جبکہ دیگر جوانوں نے حویلی پر دھاوا بول دیا تھا۔ 

سردار شمشیر، اسفی اور ولی سمیت حویلی میں موجود عورتوں کو فوج اپنے تحفظ میں لے چکی تھی جبکہ دوسری طرف بہرام کے پہرےداروں سے سخت مقابلہ جاری تھا۔

            ******💕💕💕******

" آاااہہہہ ۔۔۔۔"  وہ زیرِ زمین بنے اندھیرے غار میں بری طرح لاکر زمین پر پھینکی گئی تھی کہ اس کا سر پتھر سے ٹکرانے کے باعث خون کی لکیر ماتھے سے ابل کر داہنے گال پر آ چکی تھی۔ 

اُن وحشی درندوں کے خوفناک حلیے اور شکلیں دیکھ وہ ڈرتی ڈرتی خود کو چادر میں سمیٹتی اٹھ کر پیچھے ہونے لگی تھی ۔۔مگر پیچھے کھڑے کسی وجود سے ٹکرانے پر دہل کر  زور سے چیخی تھی۔ 

تراب جس گھڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا اس کے بعد وہ راستہ بھٹک گئی تھی ۔۔۔ 

ابھی کچھ دور ہی بچتی بچاتی بھاگ رہی تھی جب ان درندوں نے اسے آن پکڑا تھا۔

"  میں نے کہا تھا نا تم مجھ سے نہیں بھاگ سکتیں! میری بھوکی شیرنی ۔۔۔۔۔"  رگوں میں زہر کی مانند سرایت کرتا بہرام کا وہ مخصوص لہجہ اُس کی سانسیں روک چکا تھا۔

بہرام کے اشارے پر وہ درندے باہر کی جانب مقابلہ کرنے کی غرض سے چلے گئے تھے ۔۔ 

ادھر تطہیر نے تڑپ کر اس سے دور ہونے کی کوشش کی تو وہ اُسے پیچھے سے ہی اپنے حصار میں قید کرتا، اس کے کاندھے پر تھوڑی ٹکاتے سرگوشی نما کہنے لگا ۔

" تو پھر میں یہ اخذ کروں کہ اپنے بابا اور کیہان سے زیادہ اُس کی جان عزیز تھی تمہیں ؟ " 

وہ روتی ہوئی اس کی گرفت سے نکلنے کو پنجرے میں قید پنچھی کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔ 

" وہ تمہاری جان لے لے گا گھٹیا انسان ۔۔۔ چھوڑو مجھے....... چھوڑووو ۔۔" 

" ہاہاہاہاہا!  وہ صرف دو رہ گئے ہیرے.......اور میرے بندے تمہاری اس معصوم سوچ سے بہت زیادہ اور طاقتور ہیں جو لمحوں میں اس کے یہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی صفایا کر دیں گے۔۔ " وہ اس کے جملے سے محظوظ ہوتا رعونت سے بولتے اس کے سامنے آیا تھا جبکہ تطہیر کو اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی تھی ۔ 

" نن..... نہیں .... نہیں ۔۔"  وہ بمشکل یہ لفظ ادا کرپائی تھی جب بہرام اسے مزید اندر کی جانب لے آیا تھا جہاں اسلم الٹا لٹک رہا تھا۔ 

اُس کے سر سے خون کے قطرے نیچے گر رہے تھے۔۔۔ 

جسم پر وحشیانہ تشدد صاف ظاہر تھا، مگر وہ اتنے تشدد کی باوجود بھی اپنے ہوش میں تھا اور تطہیر کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔۔ 

" ااا...... اسلم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "  اُس نے پوری شدت سے بہرام کے پیٹ میں کہنی کا وار کیا تھا۔۔ جس پر وہ بلبلا کر اپنی گرفت ڈھیلی کر گیا تھا ۔۔ تطہیر نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اُس کی جیب میں موجود پسٹل نکالی اور بجلی کی تیزی کے ساتھ پر زوردار وار اس کے منہ پر لگایا۔ 

بہرام کے منہ سے خون ابلنے لگا تھا، وہ کراہتے ہوئے نیچے گرا تھا۔ 

وہ اس سے دور بھاگتے فوراً سے اسلم کی جانب بھاگی تھی۔۔ 

" اسلم بھائی ۔۔۔۔" 

" ویلڈن شیرنی! جلدی سے اس زنجیر کو شوٹ کرو ۔۔۔۔"  اسلم نے اُسے اتنا بہادر اقدام اٹھاتے دیکھ داد دے کر جلدی سے کہا۔ 

تطہیر سفید چہرہ لئے اسے دیکھنے لگی ۔۔ گولی چلانا اس کے بس کا کام نہیں تھا، اور اگر وہ چلا بھی دیتی تو اسلم نیچے گر جاتا۔

" تطہیر جلدی کرو ۔۔۔۔ ہمارے پاس سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ " وہ درد سے کراہتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ نظریں بہرام پر ٹکی تھیں ۔

" آپ ۔۔۔ آپ کو لگ جائے گی۔" وہ روتے ہوئے بولی تھی ہاتھ تھر تھر کانپ رہے تھے۔

" نہیں لگے گی ۔۔۔۔۔ کم آن فائر ۔"  اسلم کے پاس اسے سمجھانے کا وقت نہیں تھا، جو حرکت بہرام گلفام اور کیہان کے ساتھ کرنے والا تھا اسے ہر حال میں تطہیر کے ساتھ ساتھ اُن دونوں کو جلد از جلد کسی نا کسی طرح بچانا تھا۔ 

تطہیر نے اپنی آنکھیں بند کی تھیں ۔۔ اس نے تو کبھی کسی چيونٹی تک کو نہیں مارا تھا اور آج وہ کانپتے ہاتھوں میں گن پکڑے کھڑی تھی۔۔ 

جب بہرام کی غضبناک آواز پہ اس نے چونک کر آنکھیں کھولی تھیں ۔

اس سے پہلے کے وہ اس کے پاس پہنچ کر گن جھپٹتا تطہیر نے اللہ کا نام لیکر فائر کیا تھا ۔۔ 

اسلم زخمی وجود زنجیروں کی قید سے آزاد ہوکر نیچے گرا تھا اور برق رفتاری سے بہرام کے تطہیر تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کے ہاتھ سے گن لیکر اسے اپنے پیچھے چھپائے پستول بہرام پر تان چکا تھا۔ 

مگر اسلم کی قسمت بہت خراب تھی اس نے جیسے ہی فائر کرنا چاہا خالی میگزین کی آواز نے جہاں بہرام کے شیطانی چہرے پر مسکراہٹ نے احاطہ کیا وہیں تطہیر اس کے الٹے ہاتھ پہ اپنی گرفت سخت کرتے  پیچھے ہٹنے لگی تھی ۔۔ 

" آہ... اب کیا کرو گے میرے دوست؟ کیسے بچاؤ گے اسے، کیہان کو، آخری ہچکیاں لیتے گلفام کو اور سب سے اہم اپنے  لوگوں کو ؟ "  اس کے چہرے سے تکبر، غرور اور سرکشی چھلک رہی تھی۔ 

اسلم اس کنڈیشن میں نہیں تھا کہ بہرام جیسے درندے سے مقابلہ کرتا ۔۔۔ اس کے سیدھے ہاتھ میں گولی لگی تھی جبکہ جسم تشدد سے بھرا ہوا تھا۔ 

چہرے پر جا بجا نشانات چھپے ہوئے تھے جن سے خون رس رہا تھا۔

وہ تنفر و حقارت بھری نظروں سے بہرام کو گھور رہا تھا جو قدم قدم اُن دونوں کی جانب آگے بڑھ رہا تھا۔ 

ادھر اسلم کا  بازو تھامے کھڑی تطہیر کے کپکپاتے لبوں پر جاری آیت الکرسی کا ورد اپنی شدت پکڑ چکا تھا۔ 

بہرام کی خطرناک مسکراہٹ اور اس کے ہاتھ میں موجود تیز دھار آلا دیکھ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح اس جلاد کے منصوبے کو ناکام بنائے ۔۔

 اسلم کی غیر حالت اس کے سامنے تھی ۔۔۔ بھائی اور باپ نجانے کہاں اپنی موت سے لڑ رہے تھے۔۔  تراب ، جواد ، یامین عبداللہ سب ہی اپنی جان جھونک کر موت سے مقابل تھے۔ 

" تطہیر! ڈرو مت تراب سر آتے ہوں گے ۔۔۔۔  تم بھاگ....... بھاگو یہاں سے.... میں اس سے نپٹتا ہوں ۔ "  وہ اس عالم میں بھی اس کی جان کو فوقیت دیتا آہستگی سے بولا تھا۔ 

تطہیر نم آنکھوں میں محبت سے اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔ 

" تم جانتی ہو اس کا ایک معصوم چار سالہ بیٹا ہے ۔۔ تم سوچ سکتی ہو  اگر وہ نہیں لوٹا تو اس معصوم کے دل پہ کیا گزرے گی ۔۔۔۔۔ " دفعتاً تراب کی آواز گونجتی محسوس ہوئی تھی جو اس کے رونگٹے کھڑے کر گئی تھی۔ 

اس نے بے بسی سے برستی آنکھیں موند کر دل کی گہرائیوں سے کل کے مشکل کشاء کو مدد کے لیے پکارا تھا ۔ 

منظر یکدم بدلا تھا گولیوں کا شور فضا میں گونجنے لگا تھا۔ 

جنگل کے اس سنسان و ویران علاقے میں اب میدان جنگ سج چکا تھا اور دونوں جانب موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے شیر جوان فوجی دہشت گردوں سے سخت مقابلہ کرنے میں مصروف ہو چکے تھے ۔۔۔

جواد، یامین، عبداللہ اور تراب اس وقت بپھرے ہوئے شیروں کی مانند اُن جانوروں پر حملہ آور تھے۔

ان دہشت گردوں کا وہاں موجود سربراہ  اندر سے خبر لگنے پر بھاگتا ہوا، گندی گالیاں دیتے آیا تھا اور بہرام کو اپنی زبان میں پیغام دیتے اس نے تطہیر کو دبوچ کر اپنے قبضے میں لیا تھا اور اسلم کے منہ پر مشن گن سے کاری ضرب لگائی تھی ۔۔۔ وہ منہ سے خون اگلتا زمین پر گرا تھا ۔ 

بہرام کے چہرے پہ خوف کے تاثرات نمایاں ہوئے تھے ۔۔

ماتھے کا پسینہ صاف کرتے وہ اندر کی طرف بھاگا تھا ۔۔

گو کہ تطہیر کو اپنے ساتھ لے جانے کی ہمت نہیں تھی ۔ وگرنہ جو انجام اس کا ان دہشت گردوں کے ہاتھ ہوتا وہ اس سے بخوبی واقف تھا۔ 

ادھر وہ درندہ اسلم کو بے دردی سے مار رہا تھا۔

" حرام خور تم امارے کو مارے گا تو یہاں سے زندہ بچ کر تم بھی نہیں جائے گا ۔ ام تمارا نام و نشان مٹا دے گا ۔۔۔ " 

تطہیر کی دلخراش چیخیں وہاں گونج رہی تھیں ۔۔۔

وہ اپنی پوری جان لگا کر اس ظالم درندے کو ایک ہاتھ سے مار رہی تھی جس نے خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی ۔۔۔ 

مگر اس پہ کوئی اثر نہیں ہورہا تھا وہ جانوروں کی طرح اسلم کے ادھ موئے وجود کو تڑپا رہا تھا ۔۔

 اس نے بے حسی کی انتہا کردی تھی جب وہ اسلم کے چہرے پہ اپنا بھاری اور کیل کانٹے لگا بوٹ رکھنے کو تھا ۔۔ 

تطہیر نے یہ دل دہلانے والا منظر دیکھ اپنی کل ہمت مجتمع کر کے اس کی جیکٹ میں جھانکتا تیز دھار جنجر نکال کر عین موقع پہ بنا جھجکے اس کے گردن میں گھونپ دیا تھا۔

خون کا فوارا ابلا تھا..... وہ تطہیر کا بازو آزاد کرتے خوفناک طریقے سے کراہتے تھوڑا پیچھے کو ہٹا تھا۔ 

تطہیر روتی ہوئی اسلم کو اٹھانے لگی تھی جو اپنا ہوش کھوتا جا رہا تھا ۔ 

مگر وہ جانور اس حالت میں بھی اپنی گن سے ان دونوں کے وجود کو بھوننے کو تھا..... جب ہانپتے ہوئے اندر داخل ہوتے تراب نے لمحے کی دیری کئے بنا اس کا ہیڈ شوٹ لیا تھا ۔۔ 

اس درندے کے ہاتھ سے مشین گن نیچے گری تھی اور وہ خود بھی جہنم واصل ہو چکا تھا ۔ 

" اا... ابوتراب ...... اسلم بھائی ۔۔گگ... گولی ۔۔۔۔۔" تطہیر کی اٹکی ہوئی سانسیں اسے دیکھ کچھ بحال ہوئیں تھیں اور وہ اسلم کو جگانے لگی تھی ۔

" اسلم ۔۔۔۔۔۔"  تراب بھاگتے ہوئے اسلم کے پاس پہنچا تھا جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے نیم غنودگی میں تھا۔ 

اسلم کی چلتی مدھم سانسیں اور تطہیر کو اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھ تراب کی بھی سانسیں بحال ہوئی تھیں ۔۔ 

اس کا ڈرہ سہما بکھرا وجود تراب کو تڑپا گیا تھا ۔۔۔۔ وہ اسے خود میں چھپا لینا تھا۔ 

مگر وقت بہت نازک تھا ۔۔۔ اس نے ایک بار پھر اپنے دل کی قربانی دیتے ہوئے اسلم کا سر اپنی گود میں رکھا تھا۔ اسے ہر صورت میں تطہیر کے ساتھ ساتھ اپنے جوان کی جان بچانی تھی۔

وہ اسلم کو کسی قیمت پہ کھو نہیں سکتا تھا ۔۔

" اسلم اٹھو ۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا تمہیں ۔۔۔ کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔" وہ پھولی سانسوں سے کہتا اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔ 

اسلم نے مستقل پکار سن کر بمشکل بوجھل آنکھیں زرا سی وا کی تھیں ۔۔ تراب کو خود پر جھکا دیکھ اس کے لبوں نے لرزتے ہوئے جنبش کی تھی۔ 

" اا... ایم.... سس.... سوری... سر ۔۔۔۔  پلیز سس... سیو کک کیہان..... بہرام...مم.. مار.... ۔"  وہ اتنا بول کر مکمل حواس سے بیگانہ ہو چکا تھا ۔ 

اس سے پہلے کے تراب تطہیر کو کوئی دلاسہ دیتا وہ اندر کی جانب بھاگی تھی..

" یامین، جواد کم ان سائیڈ ۔۔ ہری اَپ! " اس نے ائیر پیس پر چیختے ہوئے حکم دیا تھا۔ 

جواد، عبداللہ، یامین جو اوپر غار پر چھائے تعینات شر پسندوں کا خاتمہ کرکے فوراً وہاں پہنچے تھے۔ 

جنگل میں لاشوں کے انبار لگ چکے تھے۔۔ مقابلہ زوروشور سے جاری تھا ۔

وہیں تین جوان مزید اپنا فرض نبھاتے  اپنی جان قربان کر گئے تھے۔ 

" جج..... جواد گیٹ ہم ٹو دا ہاسپٹل فاسٹ ۔ سانس بہت مدھم ہیں اسے آکسیجن دو ۔۔۔" وہ ان تینوں کو دیکھ اپنی گن اُٹھائے عجلت و پریشانی سے کہتا تطہیر کے پیچھے بھاگا تھا۔ 

عبداللہ نے اسلم کو بنا دیری کے کاندھے پر ڈالا تھا جبکہ یامین اس کے بیک پر تحفظ دینے ساتھ نکلا تھا۔ 

گولیوں کی بوچھاڑ میں یوں بچ کر اپنے مقام تک بحفاظت رسائی حاصل کرنا آسان کام نہیں تھا جبکہ اسلم کی حالت بے حد نازک تھی۔ 

جواد اُن دونوں کو اوپر خیریت سے پہنچا کر واپس تراب کے پیچھے نکلا تھا۔ 

             ******💕💕💕******

وہ اندر کی جانب پاگلوں کی مانند دوڑ رہی تھی۔ غار میں بہت طویل سرنگ بنی ہوئی تھی ۔ پتھروں اور اندھیرے سے گھرے اُس تنگ راستے اختتام نجانے کہاں ہونا تھا۔ لیکن وہ راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پار کرتے بھاگ رہی تھی۔ کتنی بار زمین پر ٹھوکر کھا کے گری تھی پر ہمت کر کے دوبارہ اُٹھ جاتی تھی ۔۔

گرنے کی وجہ سے زندگی میں پہلی بار آج اس کے سر سے چادر گری تھی مگر آج اسے اپنا ہوش ہی کہاں تھا۔ 

جان تو بس باپ اور بھائی کو بچانے میں اٹکی تھی۔ 

دھڑکتا دل لیے بار بار آنسو رگڑتے بہت تیزی سے بھاگ رہی تھی ۔۔ گو کہ اس کی آنکھوں میں بارہا اندھیرا چاہ رہا تھا ۔ 

مگر ذہن کے پردوں پر بچپن کے مناظر گھوم رہے تھے ۔۔

                ****************

" بابا کیا یہ گندے لوگ ہیں؟  " بارہ سالہ تطہیر وادیِ تیراہ کی پہاڑیوں کو عبور کرتے مسلح فوجیوں کو دیکھ دونوں گالوں میں اخروٹ بھرکر معصومیت سے پوچھ رہی تھی جبکہ ہاتھ دوسرے اخروٹ کا آپریشن کرنے میں مصروف تھے۔

گلفام اُن دنوں اُسے لیکر تیراہ کی وادیوں میں اپنے دوست سے ملنے آیا ہوا تھا۔

دوست سے ملن کے بعد وہ تطہیر کو لئے باغات سے پہاڑوں کا رُخ کئے بہتی آبشاروں کے خوبصورت قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے ایک پہاڑی پہ چڑھ ڈورا تھا ۔

پہاڑی کافی اونچی تھی اور اختتام پر دور دور تک کے ہریالی بھرے منظر اور مزید پہاڑ جنگل نظر آرہے تھے ۔۔

ایسے میں دور کسی جنگل میں موجود فوجی ترپیتی کیمپ سے کچھ جوان پہاڑوں پر چڑھ کے اپنی مشق کر رہے تھے جنہیں تطہیر نے بڑی حیرانی سے دیکھ کر استفسار کیا تھا۔ 

" نہیں ہیرے! یہ تو بہت اچھے لوگ ہیں، یہ ہمارے محافظ ہیں جو گندے لوگوں سے لڑ کر ہماری حفاظت کرتے ہیں ۔" گلفام نے محبت سے چُور نظروں سے اس کا معصوم چہرا دیکھتے بتایا۔ 

" بابا یہ کتنے اچھے ہیں نا؟ مجھے بھی ان کی طرح بننا ہے ۔" 

"میری بھی بڑی خواہش ہے ہیرے کہ تو اور کیہان بھی ان جوانوں کی طرح مضبوط، بہاڈر اور نڈر بنیں ۔۔۔۔۔ 

" پر بابا! ہانی تو ابھی صرف چھ ماہ کا ہے ......... لیکن میں آپ کی یہ خواہش ضرور پوری کروں گی۔  آپ مجھے بتائیں ان کے جتنا اونچا ہونے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟ اور ان کے ہاتھ میں جو یہ اتنی بڑی بندوق ہے یہ کہاں سے ملے گی بابا ؟ یہ بہت مہنگی ہوگی نا ۔۔۔ ہم تو غریب ہیں بابا ۔۔ ہم کیسے خریدیں گے؟ " 

وہ اخروٹ جھولی سے اٹھاکر سائیڈ میں رکھتی پہاڑ کی چوٹی پر اپنے باپ کے آگے کھڑی ہوکر بڑی معصومیت سے پوچھ رہی تھی۔

جبکہ گلفام حسین کے لبوں پر مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا مگر اس کی آخری بات آنکھوں میں نمی لے آئی تھی۔

" ارے نہیں ہیرے!  فوجی بننے کے لیے بہت محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے اور اچھی پڑھائی بھی کرنی پڑتی ہے ۔۔ پر ہماری بستی میں تو کوئی کالج بھی نہیں ہے۔ فقط دسویں تک کا اسکول ہے ۔ تو پہلے وہ پڑھ لے پھر اللہ نے چاہا تو اپنی شہزادی کو  بڑے شہر کے فوجی کالج میں داخل کرواؤں گا۔ پھر تو فوج میں چلی جانا وہ تجھے خود سارا سامان دے دیں گے ۔"

" سچی بابا؟ سب مفت دیں گے؟  " اس کی خوشی کی انتہا نا تھی۔ 

" ہاں میرے جگر کے ٹکڑے بالکل سچی ۔۔۔" گلفام نے اسے کھینچ کر گود میں بٹھاکر ماتھا چوما تھا۔

" بابا کتنا مزہ آئے گا پھر میں بھی ان کی طرح ڈششم ڈششم کر کے دشمنوں کو ماروں گی ۔۔ لیکن اگر انہوں نے مجھے مار دیا تو ۔۔۔ وہ تو بہت ڈراؤنے ہوتے ہیں نا اور طاقتور بھی اور میں تو لڑکی ہوں ۔۔"  وہ چہکتے ہوئے بول رہی تھی مگر اچانک ہی اداسی نے جگہ لے لی تھی۔

" ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ہیرے ۔۔۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت اُس خالقِ اکبر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔۔۔

 یہ شیطان صفت انسان چاہے کتنا ہی زور لگا لے ۔۔۔ لاکھ کسی کو اپنی طاقت سے بے بس کردے، 

مگر اگر کسی انسان کا یقین خدا پر ہو، اس کا ایمان مضبوط ہو، اس کی لگن سچی ہو، تو خدا خود بہ خود اس کے اندر اتنی طاقت دے دیتا ہے کہ وہ باطل کے آگے ڈٹ جاتا ہے اور اپنی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میدانِ جنگ میں اپنے اور  اپنی ذات سے منسلک ہر پسندیدہ انسان کے لیے کود پڑتا ہے ۔۔ تب وہ یہ بھی فرق بھول جاتا ہے کہ وہ لڑکی ہے کے لڑکا ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس کے پاس اللہ کی دی گئی طاقت آ جاتی ہے ۔

اور تجھے پتا سب سے بڑی طاقت کیا ہے؟ 

تاریخ کائنات کے سب سے بہادر اور نڈر  حضرت علیؑ نے فرمایا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی طاقت اپنے پروردگار پر توکل کرنا ہے اور پھر فرمایا کہ سب سے زیادہ طاقتور اور بہادر انسان وہ ہے جو اپنے نفس پر سختیاں جھیل کر، اس کی خواہشات پر قابو پا لے ۔۔ مشکلات پر صبر کرے اور ذات خدا پر کامل یقین رکھے۔

زرا دیکھ اِن فوجی جوانوں کو ۔۔۔۔ یہ بھی اس بات کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں ۔ 

ان کا خدا کی ذات پر پختہ ایمان انہیں بڑے بڑے میدانوں میں فتح بخش دیتا ہے ۔۔ 

یہ ان جوانوں کا اپنے نفس پر قابو اور مضبوط حوصلہ ہے کہ یہ اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنے مٹی سے منسلک لوگوں کے لیے موت کے میدان میں بے خوف و خطر کود پڑتے ہیں ۔ 

ان جوانوں کے خون میں دوڑتی حسینیتؑ کی نشانی ہے کہ یہ اپنے دن رات اپنی مٹی سے وفا نبھانے میں گزار دیتے ہیں ہیرے، یہاں تک کہ شہید ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔ 

یہ بھی کربلا والوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں ۔۔ 

انہیں معلوم ہوتا ہے ان کا انجام یا تو شہادت ہے یا غازی بن کر فتحیاب ہونا ہے ۔۔ 

لیکن یہ اپنی موت سے نہیں گھبراتے بلکہ شہادتِ کے مرتبے پر فائز ہونے کے متمنی رہتے ہیں ۔۔۔ 

یہ اُس نشانِ حیدرؑ کے طلبگار ہوتے ہیں جس کو پانے والا دنیا و آخرت میں سُرخرو ہوجاتا ہے۔ 

واللہ شہادت بڑی سعادت ہے ہیرے.... بہت بڑی سعادت ۔ "

             ******💕💕💕******

اُس کی بے لگام ڈور کا اختتام جنگل کے بالکل اخیر میں موجود سرنگ کے دوسرے حصے پر ہوا تھا ۔

پھولتی سانسوں کو ہموار کرکے جو اس نے نگاہیں اٹھائی تو نظروں کے سامنے ایک دو منزلہ کچی عمارت درختوں میں گھری کھڑی تھی ۔۔

مسلسل اندھیرے میں بھاگتے بھاگتے یکدم روشنی میں آنے سے اسے سر گھومتا محسوس ہورہا تھا اوپر سے ماتھے پر لگی چوٹ کی تکلیف بھی شدید درد کر رہی تھی۔

" ہیر پلیز رک جاؤ! آگے تمہارے لیے خطرہ ہو سکتا پلیز ٹرسٹ می ونس ۔۔۔۔۔آئی ول سیوو دیم ۔" اسے تراب کی آواز بہت قریب سے آتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔

وہ جانتی تھی کہ اگر تراب کے ہاتھ لگی تو وہ اسے مرکر بھی اندر جانے نہیں دیگا۔ اس لیے وہ وہیں زمین پر پڑی موٹی لکڑی اٹھا کر اس عمارت میں اندر جا گھسی تھی ۔۔

اِدھر جواد نے اس نا ختم ہونے والی سرنگ کو دیکھ فوراً میجر سکندر حیدر سے جوانوں کو یہاں بھیجنے کی درخواست کی تھی۔

آگے کیا ہونے والا تھا کوئی بھی اندازہ لگانے سے قاصر تھا۔

مگر عجیب وحشتناک ماحول تھا جو بہت  خطرناک انجام کا پتا دے رہا تھا۔

" ہیر ۔۔۔۔۔۔" تراب جب اختتام پر پہنچا تو اسے کہیں بھی نا پاکر سخت پریشان ہوا تھا مگر سامنے موجود عمارت دیکھ دل مزید زوروشور سے دھڑکا تھا۔ 

وہ اپنی قیمتی جان کی پرواہ کئے وائرلیس پر ہیلپ کال دیتا اندر داخل ہو چکا تھا ۔ 

عمارت میں کھنڈرات کا ڈھیر لگا تھا۔ اندھیرا بھی ہورہا تھا ۔ سامنے ہی دیوار کے ساتھ اوپر اور نیچے دونوں جانب جاتی کچی سیڑھیاں تھیں ۔ 

وہ ہاتھ ٹریگر پہ رکھے ہوئے ابھی سیڑھیاں عبور کرنا چاہتا ہی تھا کہ پیچھے سے سر پر لگنے والی ضرب نے اس کے قدم ڈگمگا دیے تھے اور وہ اوندھا ہی گرا تھا۔ 

ابھی اُٹھنے لگا ہی تھا کمر پر زوردار کک پڑھنے سے منہ سیڑھیوں سے لگ کر پھٹ چکا تھا ۔ 

وہ انگلی ٹریگر پہ رکھے ہوئے ابھی سیڑھیاں عبور کرنا چاہتا ہی تھا کہ پیچھے سے سر پر لگنے والی ضرب نے اس کے قدم ڈگمگا دیے تھے اور وہ اوندھا ہی گرا تھا۔ 

ابھی اُٹھنے لگا ہی تھا کمر پر زوردار کک پڑھنے سے منہ سیڑھیوں سے لگ کر پھٹ چکا تھا ۔ 

بہرام نے اسے درد سے کراہتے دیکھ، بالوں سے پکڑ کر مقابل کھڑا کیا ۔۔ مگر اس بار تراب نے اٹھتے ہی اس کے منہ پر زبردست گھونسا جڑا تھا۔ ناک سے ابلتا خون صاف کرتے وہ دونوں ایک دوسرے پر جھپٹ چکے تھے۔ 

اگر بہرام وحشی تھا تو وہ بھی ایک بہادر اور ویل ٹرینڈ فوجی تھا ۔۔ جس کے اندر بھڑکتی آگ اس کے خون کو مزید جوش مار گئی تھی اور اب وہ بہرام کا عبرتناک انجام بنانے میں مگن تھا ۔ 

دونوں کی بندوقیں دور گری پڑی تھیں ۔۔ اور وہ زور آزمائی میں لگے تھے ۔

مکے، گھونسے لاتیں اور تھپیڑوں کی بوچھاڑ نے بہرام کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا تھا ۔۔ مگر وہ تھا کہ کسی صورت قابو میں نہیں آرہا تھا۔ 

زبان سے مسلسل مغلظات بکتے تراب کو زمین پر گراتے اچھل کر اس کے سینے پہ لات ماری تھی ۔۔۔ تراب تکلیف سے دوہرا ہوگیا تھا مگر پھر بھی خود کو نیچے گرنے سے محفوظ رکھا تھا۔  بہرام نے اس کی لڑکھڑاہٹ کا فائدہ اٹھاتے اس کا گلا گرفت میں لیکر دبانے لگا تھا۔

تراب پوری طاقت لگا کر اس کی گرفت توڑنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ مزید سخت کرتا جارہا تھا ۔۔

 دفعتاً تراب نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھے اپنا گھٹنا پوری طاقت سے اس کے ناف میں مارا تھا کہ وہ بلبلا کر چیختا ہوا پیچھے گرا تھا۔ لیکن اب باری تراب کی تھی اسے درد سے تڑپتے دیکھ اپنے ہونٹ سے بہنے والے خون کو پوچھتے جھتکے سے کالر دبوچے بہرام کو اٹھایا تھا ۔۔ اور اپنے آہنی ہاتھ سے گلے میں پھندا لگا کر دبا رہا تھا ۔۔

تراب اس کا ہی داؤ اس پر لگا رہا تھا۔

وہ دونوں ہی خون اور پسینے سے تر ہو چکے تھے ۔۔ بہرام کی مزاحمت سانسیں رکنے کے باعث دم توڑنے لگی تھی ۔۔ 

تراب نے اپنی سانسیں بحال کرتے اسے دیوار کی جانب دھکا دیا تھا ۔۔۔ مگر بہرام نے بجلی کی تیزی سے نیچے پڑی کلاشنکوف اٹھانی چاہی تھی کہ تراب نے اس کا شیطانی ارادہ بھانپ اس کے منہ پر پوری طاقت کے ساتھ کھڑے قد سے لات ماری تھی ۔ ۔۔ اور بنا سنبھلنے کا موقع دیے اسے گلے سے دبوچ کر دیوار پر سر مارنے لگا تھا۔

" آج نہیں بہرام! آج تیری موت میرے ہاتھوں ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔" 

تراب آنکھوں میں چھلکتا جنون حد سے سواء ہوچکا تھا ۔۔

اس جانور کی وجہ سے اس کے کتنے جوان زخمی اور چار شہید ہو چکے تھے ۔۔  اسلم موت دھانے پر کھڑا سانسوں کی جنگ لڑ رہا تھا ۔ نجانے کتنے معصوم لوگ موت کی نیند سو چکے تھے ۔۔۔

 ثمر، خرم، فرزدق، اکبر، گلفام، گل بانو کیہان اور وہ لڑکی جسے اپنا بنانے کی دل نے چاہت کی تھی بہرام نے اسے کتنی اذیتوں سے دو چار کردیا تھا ۔۔۔ 

تراب اسے دوبارہ نیچے پھینک اپنی بھاری گن سے اس کے منہ پر ضربیں لگا رہا تھا ۔۔۔

بہرام لہو لہان ہوچکا تھا ۔۔ اس کا خوبصورت چہرہ بے حد ہولناک ہوگیا تھا ۔۔ نیلی آنکھیں زائل ہوچکی تھیں۔۔ جبڑوں کی ہڈیاں چٹخ چکیں تھی، مگر مجال تھی کہ اپنی موت سامنے دیکھ کر بھی اسے کوئی پچھتاوا تھا ۔۔۔ وہ کراہتے کراہتے بھی پُر اسرار طریقے مسکرا رہا تھا ۔ نجانے کیسا وحشی جانور تھا کہ خدا کے غیض و غضب اور انتقام سے بھی خوفزدہ نہیں تھا۔

تراب کی آنکھوں میں مزید خون اتر آیا تھا ۔۔۔ ابھی وہ کوئی قدم اٹھتاتا کہ کان میں کمانڈنگ آفیسر کی آواز گونجی تھی۔

" کیپٹن تراب! ہمیں بہرام زندہ چاہیے ۔ آپ نے اسے زندہ پکڑنا ہے ۔۔۔ ہمیں اس سے تمام انفارمیشن اگلوانا ہے۔ یاد رہے آپ اسے شوٹ نہیں کریں گے ۔ کوپ آپ کی اسسٹنس کو پہنچ رہی ہے۔ جب تک ٹیم نہیں پہنچ جاتی آپ کچھ نہیں کریں گے۔" تراب نے سختی سے مٹھیاں بھینچی تھیں۔

" وہ ..... میری نن نہیں ہوئی تو....... تیری بھی... نہیں.... رہے گی کیپٹن ۔۔  نن نہیں بچا.... سکے گا ۔۔ اس کی موت...... کا ذمے دار.... تو ہوگا ۔ "  ٹوٹے ہوئے جبڑے سے وہ بمشکل ٹوٹے پھوٹے لفظ ادا کرپایا تھا جو مقابل کو مزید اشتعال دلایا گیا تھا۔

اس کی بات سن کر تراب کے ہاتھ تھمے تھے ۔۔۔ شیر کی طرح دھاڑتے اس نے بہرام کے ماتھے پر بندوق کی نال رکھے پوچھا تھا ۔

" اگر اسے کچھ ہوا تو میں تیرے ٹکڑے بنادوں گا بہرام ۔۔۔۔ بول کہاں ہے تطہیر؟ "

" کیپٹن تراب نقوی اگر آپ کمانڈ سن رہے ہیں تو جواب دیجئے۔ " اس کے کان میں مسلسل بہرام کو زندہ پکڑنے کی صدائیں گونج رہی تھیں ۔

" میں آخری بار پوچھ رہا بہرام ۔۔بول کہاں ہے تطہیر؟ “  اس نے ضبط سے سرخ آنکھیں لئے دہاڑتے اپنی آخری حجت تمام کی تھی ۔

" تو... نن.... نہیں.. بچا سکا... اسے.... بیچ... بیچاری... ہیرے.... اب .... تک تو..... مم مر ۔۔۔۔۔۔۔۔ "  اس سے پہلے کہ وہ جملہ مکمل کرپاتا تراب کی بندوق سے نکلنے والی لگاتار گولیوں نے اس کا سر ہی نہیں پورا جسم چھلنی کردیا تھا ۔ 

وہ ایک نفرت سے اس کو لات مار کے دھکیلتا اوپر بھاگا تھا۔ 

"تطہیر ......... ہیر کہاں ہو تم؟ " وہ بآوازِ بلند پکارتے ہوئے اندر ڈھونڈ رہا تھا۔ پھٹا ہوا سر اور ہونٹ لئے وہ پاگل ہو رہا تھا۔ جسم تکلیفوں سے ٹوٹ رہا تھا۔ لیکن وہ بپھرے شیر کی مانند اس حال میں بھی اندر موجود درندوں سے تنہا مقابلہ کرتے، ان دہشت گردوں کو واصلِ جہنم کرتا پہلی منزل کے ایک کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتا گلفام زمین پر ایڑیاں رگڑتا پڑا تھا۔

تراب تیزی سے اس کے پاس پہنچا تھا۔ وہ نحیف و زخمی چہرہ پہچاننے میں اسے لمحہ لگا تھا ۔

" گگ گلفام چچا ۔" 

وہ ناک کے پاس ہاتھ لے جا کر سانسیں چیک کرنے لگا ۔ سانسیں بے حد مدھم تھیں۔

" اُٹھیں ۔۔۔۔ گلفام چچا ۔۔۔۔۔ پلیز اٹھیں ۔  میں آگیا ہوں ۔۔۔ آنکھیں کھولیں ۔۔ ہمت کریں۔۔ تطہیر کہاں ہے؟ میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا پلیز آنکھیں کھولیں ۔۔"  

گلفام نے اتنی زخمی حالت میں بھی ہیر کے نام پر تڑپ کر  آنکھیں کھولی تھیں، آنسو پل پل بہہ رہے تھے ۔۔ لڑکھڑاتی زبان لئے اس کے لب پھڑپھڑا رہے تھے ۔ وہ کچھ بولنے کی کوشش رہا تھا ۔۔ 

" چچا ۔۔۔" تراب نے اپنا کان گلفام کے ہونٹوں کے قریب کیا تھا۔ اس کا دل گلفام کی بدترین حالت دیکھ پھٹ رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ انہیں نہیں بچا سکے گا۔ 

" ہہ..... ہیرے ۔۔۔۔ کک کو ۔۔۔. بچا..... لو... بب بیٹا..... ،، وو..... وہ..... ااکیلی..... رہ گئی ن.......،، کک.... کیہان..... نہیں..... رہا ۔۔۔بب بہرام نے.... اسے.... مم... مار۔۔۔۔۔۔۔ مم ممیری.... ہی رے.... کک.... کا.... خیال ۔۔۔۔۔۔"  وہ اٹکتی ہوئی سانسوں میں اذیت سے کہتا ایک ہچکی لیکر دم توڑ گیا تھا جبکہ تراب کے قدموں تلے زمین نکل گئی تھی ۔۔

دو آنسو کب ٹوٹ کر اس بادامی آنکھوں سے گالوں پر بکھرے تھے اسے خبر نا ہوئی تھی ۔۔

یہ آپریشن حقیقت میں اس کی زندگی کا سب سے کٹھن امتحان ثابت ہوا تھا ۔ 

" نن..... نہیں کیہان ۔۔" وہ بھیگی آنکھوں سے محض یہی سرگوشی کر پایا تھا۔ بہرام کی درندگی نے ایک معصوم جان کی زندگی نگل گئی تھی ۔۔۔ اس کے لئے یہ زخم اتنا گہرا تھا کہ وہ گلفام اور کیہان کو نہیں بچا پایا تھا ۔۔۔۔۔  لیکن اسے خبر نہ تھی کہ اُسے ابھی اپنی زندگی کا سب سے کٹھن امتحان سے گزرنا تھا۔

"نہیں تمہیں کک کچھ.... نہیں.... ہوگا .... ہیر ۔۔۔ میں آرہا ہوں ۔" گلفام کی آنکھوں کو اپنے ہاتھ سے بند کرتے اس نے اپنے آنسو اندر اتارے تھے ۔۔ اور نفی میں سر ہلاتے خود سے عہد لیتا، اپنی ہر تکلیف پسِ پشت ڈالتا دوسری منزل کی جانب دوڑا تھا۔ 

 تطہیر کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے دوسری منزل پر پہنچا تھا ۔۔ 

ابھی اس کا داخل ہونا ہی تھا کہ کہیں سے شیل فائر ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت دھوئیں سے بھر گئی تھی ۔۔ 

مطلب وہاں آس پاس اب بھی کچھ درندے مخفی بیٹھے تھے ۔۔

جواد بھی کچھ جوانوں کے ہمراہ وہاں پہنچ چکا تھا اور نیچے موت کا رقص پھر شروع ہوچکا تھا۔

ادھر تراب نے ہر جگہ چیک کر کے چہرے پہ کرختگی سجائے لات مار کر تیزی سے کونے والے کمرے کا رخ کیا تھا ۔

 کمرہ خالی تھا مگر کافی بڑا تھا ۔۔ اور پیچھے کی طرف اس سے اٹیچ گیلری بنی تھی جہاں چھت پر جانے کی گول لوہے کی سیڑھیاں تھیں ۔  وہ چھت کھنگال آ چکا تھا۔ تطہیر نہیں ملی تھی۔

مگر گیلری کے دروازے کے ساتھ ہی ایک اور دروازہ بھی مفقل تھا۔ 

تراب نے اسے کھولنا چاہاپر وہ لاکڈ تھا ۔۔

اس نے کسی بھی انہونی خطرے کے پیشِ نظر فائر نہیں کیا اور کمرے میں کوئی نوکیلی چیز کی تلاش شروع کی جس سے لاک کھول سکے ۔۔

کافی دیر کی محنت کے بعد ایک تنکا مل ہی گیا۔ اس نے کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے آہستگی سے لاک کھولا۔

مگر جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا تو سانسیں رک سی گئی تھیں ۔۔

اونچی لوہے کی سلاخ سے بندھے رسی کے ایک سرے سے کیہان جبکہ دوسرے سے تطہیر کچھ اسطرح سے بندھے تھے کہ کسی ایک کی موت ہونا لازم تھی کیونکہ ایک جانب دیوار میں بندوق نسب تھی جو باڈی سینسر ملتے ہی پہلے نیچے آنے والے انسان کو اپنے اندر موجود گولیوں سے بھون دیتی۔

کیہان بیہوش تھا، اس کی گردن ایک جانب لڑھک رہی تھی مگر وہ مکمل ہوش میں تھی ۔۔

اس کی آنکھوں میں بس کسی نا کسی طرح بھائی کی جان بچانے کی تمنا چھلک رہی تھی ۔۔۔۔ 

لیکن وہ معصوم نہیں جانتی تھی کہ اس کا معصوم بھائی اب دنیا کی ہر تکلیف سے  آزاد ہوکر ابدی نیند سوچکا ہے ۔۔ اُن درندوں نے اسے یہاں باندھتے ہوئے جھوٹ کہا تھا کہ وہ بیہوش ہے ۔ تب سے لیکر اب تک وہ بار بار اسے جگانے کی کوشش میں منتیں کر رہی تھی۔

" کیہان....... میری جان اٹھو ۔۔۔۔ بس ایک.... بار... میری طرف.... دیکھو...... تت... تمہاری ہیرے.... تمہیں یہاں...... سے نکال لے گی....... کیہان اٹھو نا ۔۔۔ مجھ سے بات کرو ۔۔ میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی ۔۔ ہیرے خود مر جائے گی لیکن کیہان کو کچھ نہیں ہونے دے گی ۔۔" 

تراب کا دل کٹ گیا تھا۔ اس کے اعصاب بھاری ہورہے تھے ۔۔۔جذبات امڈ امڈ کر باہر آنے کو بے تاب تھے ۔۔ زندگی میں پہلی بار اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔

لیکن یہ وقت ہمت ہارنے کا نہیں تھا۔ وہ اس کے باپ سے وعدہ کر آیا تھا ۔

اس نے خود کو مضبوط کر کے  اندر قدم رکھا تھا۔

بہرام نے بہت گندا کھیل رچایا تھا جس میں وہ بری طرح پھنس گیا تھا۔ لیکن اُسے یہ کر گزرنا تھا۔

یکدم تطہیر کی نظر سامنے کھڑے تراب پر گئی تھی ۔ تراب کو سامنے دیکھ وہ گڑگڑانے لگی تھی۔ 

" ابوتراب..... مم میرے بھائی کو بچا لو ابوتراب ۔۔۔ اسے یہاں سے نکال لو۔" 

تراب کے لب جامد تھے۔ وہ بس ساکن نگاہوں سے تطہیر کو دیکھ رہا تھا۔

"ابوتراب....... تم کچھ کرتے کیوں نہیں؟؟ میرے کیہان کو بچا لو  ۔۔۔۔ تمہیں تمہارے دوستوں کا واسطہ ہے ۔ جیسے ان سب کو بچایا...... میرے بھائی کو بھی بچا لو تراب ۔۔۔۔  

" مم.. میں اپنی.. مم ماں.......بابا کو اپنی وجہ.... سے..... کھو چکی ہوں تراب.... ! مم... مگر .... کک کیہان کو....... نن.... نہیں کھوسکتی۔  میں مر جاؤں گی ۔۔

خدا.... کے لیے..... اُس معصوم کو بچا لو ....... "  وہ ہچکیاں لیتی بمشکل بول رہی تھی لیکن تراب کی بندوق کا رخ کیہان کی رسی کی طرف دیکھ تطہیر کا دل حلق میں اچھل آیا تھا۔ 

"یہ..... یہ کیا کر رہے.... ہو تم........ وہ گرا تو مر جائے گا ۔" تطہیر تڑپ اٹھی تھی۔

" نن...... نہیں تراب.... یی... یہ...ظلم... کرو...... وہ پہلے ہی.... بہت تکلیفیں سہہ چکا ہے۔۔ 

تت.. تم مجھ سے ناراض ہو....... مجھے سزا دو..... میرے معصوم..... بھائی پہ ترس کھاؤ ۔۔۔  

تت... تم تو محافظ ہو... نا..... کک کیہان کو بچا لو ابوتراب۔۔۔۔ ایسا مت کرو۔ ایسا مت کروووو ۔۔۔ " 

"تراب۔۔۔ ہیر کو لیکر نکلو فوراً یہاں سے..... بیسمنٹ میں بم فٹ ہیں جو کسی بھی وقت بلاسٹ ہو سکتے ہیں ۔۔ یہ کسی صورت ڈسپوز نہیں ہو سکتے ۔۔۔ جلدی باہر آؤ وقت کم ہے۔ " 

جواد بری طرح کھانستے نیچے طے خانے میں مختلف جگہ نصب بم اور بھاری تعداد میں گولہ بارود دیکھ تراب کو مطلع کیا تھا اور خود جوانوں کے ساتھ ملکر ممکنہ اسلحہ بارودی مواد باہر منتقل کرنے میں لگا تھا تاکہ بم بلاسٹ ہونے پر اس جگہ کا کم سے کم نقصان ہو ۔۔۔۔ اور وادیِ عنبر کے خوبصورت جنگلات سنسان بیابانوں میں تبدیل نا ہو جائیں ۔

 " جواد تم نیچے ہی رہو اور جوانوں سے کہہ کر گلفام حسین کی باڈی سیوو کرو، فرسٹ فلور ...ہری اَپ!!  میں ہیر کو لا رہا ہوں ۔" تراب جو ساکت نگاہیں لیے تطہیر کی منتیں سن رہا تھا اپنے ہوش میں آیا تھا اور جواد کو تمام جوانوں کو اس مقام سے دور جانے کا کہتے اس نے ٹریگر پہ انگلی رکھی تھی۔

یہ وقت سوچنے کا نہیں تھا، اسے تطہیر کی جان بچانی تھی اور یہی سوچ لئے پھر اسنے جو قدم اٹھایا تھا وہ تطہیر کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔

اس گولی کے چلنے کے ساتھ ساتھ ہی 

تطہیر کے دل میں تراب کے لیے موجود مان، محبت، احساس، عزت ہر جذبے کا خون ہو چکا تھا۔

وہ پتھرا گئی تھی، کان سن ہوچکے تھے ۔ آنکھیں پھٹ گئیں تھی۔۔ زبان مقفل ہوچکی تھی ۔۔

تراب نے اسے بچانے کے لیے کیہان کو موت کی وادی میں چھوڑ دیا تھا ۔۔ دیوار میں نصب بندوق سے نکلتی گولی معصوم کیہان کے سینے کے آر پار ہو چکی تھی۔ وہ زمین پر گر چکا تھا اور خون کا فوارا ابلنے لگا تھا۔

تطہیر کا سکتا تو تب ٹوٹا جب تراب نے اسے رسیوں کی قید سے آزاد کر کے اپنے سینے سے لگایا ۔۔۔ وہ بپھری شیرنی کی مانند اسے جھٹک کر بھائی کی جانب جانا چاہتی تھی مگر تراب کے ائیر پیس پہ جواد اور میجر حیدر کی مسلسل آوازیں گونج رہی تھیں ۔۔۔

اِدھر اس نے تطہیر کا ہاتھ سختی سے تھام کر اس کے قدم زنجیر کئے تھے ۔۔ وہ ہذیانی انداز میں چیخنے رہی تھی ۔۔ لیکن تراب اسے پکڑ کر تیزی سے باہر کی جانب نکلا تھا ۔۔ دھواں بھر جانے سے اب دم گھٹنے لگا تھا پر تطہیر تو بس اس کے ہاتھ سے خود کو آزاد کروانے کے لیے اس کو نوچ رہی تھی، مار رہی تھی ۔۔

تراب کے آنسو گر رہے تھے مگر وہ بہرا بنا اسے ساتھ لیے چل رہا تھا۔

"نن.... نہیں کیہان اندر ہے تراب ۔۔۔۔۔ ،، وہ۔۔۔۔وہ مجھے بلا رہا ہے ۔۔۔۔ وہ اکیلا ہے۔

میرا بھائی ۔۔۔۔ کیہان ۔۔۔۔ وہ مر جائے گا ۔۔۔۔۔!! 

چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔۔۔ خدا کے کیلیے 

 مجھے اسے بچانے دو ۔۔۔۔ مجھے جانے دو ابوتراب ۔۔۔ کیہان ۔۔۔۔ کیہان ۔۔۔!!  میں...... نہیں جاؤں گی ۔۔ نہیں جاؤں گیییییی۔۔۔"  وہ کسی بن آب ماہی کی مانند پھڑپھڑاتی اُس کے حصار سے نکلنے نکلنے کی کی کوشش میں غلطاں تھی جو اُسے زبردستی گھسیٹتے ہوئے جلد از جلد اُس عمارت سے نکلنا چاہتا تھا۔

" تطہیر چلو ۔۔۔ضد مت کرو ۔۔ یہاں موجود بم کسی بھی وقت بلاسٹ ہوسکتا یے ۔۔" وہ باوجود کوشش کے بھی اس کی حالت دیکھ ضبط نہیں کر پا رہا تھا۔

" مم.... میں نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔ میرا بھائییییی۔۔۔۔۔ وہ..... وہ اس کا خون بہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔ 

اُسے گولی لگی تھی تراب ۔۔۔۔۔۔۔ میں کیسے اسے اکیلا چھوڑ دوں؟ 

میں نہیں جاؤں گی...... تت تم مار....... دو مجھے بھی ۔۔۔۔۔ کچھ نہیں بچا میراااا........... نہیں جینا مجھے۔۔۔ میرا بھائی ۔۔۔۔۔ مم... میں نہیں جاؤں گییییی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔"  

" فار گاڈ سیک ہیر! تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔ مر چکا ہے کیہان ۔۔۔۔پر میں اپنی محبت کو یہاں مرنے نہیں چھوڑ سکتا ۔۔ وائے ڈونٹ یو انڈرسٹینڈ دِس ڈیمٹ؟ "

پلیز....... پلیز ہیر کم ٹو یور سینسیس ۔۔ چلو یہاں سے ۔ تمہیں کچھ ہوا تو..... تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا ہیر ۔۔۔۔۔ مجھ پہ رحم کرو ۔"  

اس نے تطہیر کو پاگلوں کی طرح بلکتے دیکھ دونوں ہاتھوں سے جھنجھوڑ کر دہاڑا تھا کہ وہ دہل کر سانسیں روک گئی تھی۔ لرزتے وجود لئے وہ آنکھوں میں رحم کی اپیل لئے نفی میں سر ہلا رہی تھی ۔۔۔ جسم ہچکولے لے رہا تھا ۔۔ ہچکیاں کافی شدت سے بندھی ہوئی تھیں ۔

پر تراب نے تطہیر کی ہر مزاحمت کو ناکام بناتے ہوئے بھاگتے ہوئے سیڑھیاں عبور کرکے اسے باہر کھڑے جواد کے سپرد کیا تھا اور سختی سے اُسے دور لے جانے کا کہتے خود واپس بڑے بڑے ڈاگ بھرتا کیہان کی باڈی لینے اندر بھاگا تھا۔

کم از کم وہ اُس معصوم کے نشان کو مٹنے سے بچانا چاہتا تھا۔ 

ریسکیو جوان گلفام کو نکالنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

دوسری جانب دریا کے پار وسیع میدان میں اترتے ہیلی کاپٹرز کے زریعے اسلم کے ساتھ دیگر زخمی اور شہید جوانوں کو لیے سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا جارہا تھا۔ 

فضا میں ہیلی کاپٹروں کا گشت جاری تھا۔ 

" تراب نہیں کہاں جارہے ہو؟ واپس آؤ تراب ۔۔۔۔۔۔" جواد تطہیر کو سنبھالے چیخ رہا تھا مگر وہ اسے تطہیر کو لے جانے کا کہتے اوپر گیا تھا۔ 

ادھر بم میں لگی ڈیوایس اب ریڈ الرٹ دیتی ٹوں ٹوں کی آوازیں دینا شروع کر چکی تھی ۔۔

جواد اپنے آنسو پی کر تطہیر کا بکھرا وجود سمیٹے اسے زبردستی لیکر دور  جوانوں کے ہمراہ وہاں سے نکلنے جنگل میں تیز تیز چلنے لگا تھا۔ 

تطہیر جواد کی منتیں کر رہی تھی لیکن وہ تراب کے لیے ادھا ہورہا تھا جو اس کے بھائی کے لیے اپنی قیمتی جان موت کے منہ میں ڈالے ہوئے تھا۔  

جواد بار بار تراب کے لیے منتظر نگاہوں سے پیچھے پلٹ کر، نظروں سے بہت دور ہوئی اس عمارت کو دیکھ رہا تھا۔ جواد تطہیر اور دیگر جوانوں کو لیے تقریباً اپنی ٹیم کے پاس پہنچنے کو تھا کہ دفعتاً زوردار دھماکے کی گونج سے پوری وادی لرز اُٹھی تھی۔ زمین ہل کے رہ گئی تھی ۔۔۔ وہ خود تطہیر کا ہاتھ تھامے نیچے گرا تھا ۔ 

لمحوں میں منظر بدلا تھا عمارت منہدم ہو چکی تھی ۔۔۔۔ جواد کی دلخراش چیخ فضا میں گونجی تھی۔ جنگل کے اس حصے میں موجود درختوں میں درختوں میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے ۔۔۔

" ترابببببببببب! نہیں ۔۔۔۔ میرا بھائی تراب!! " جواد کی آنکھوں سے پل پل آنسو گر رہے تھے ۔ وہ تطہیر کو چھوڑ ، تراب کو بچانے واپس بھاگنے کو تھا جب جوانوں نے اُسے اپنی سخت گرفت میں لے لیا تھا۔ 

" کیپٹن جواد! پلیز وہاں شدید آگ پھیل چکی ہے۔ میں آپ کو کیپٹن تراب کی طرح موت کے منہ میں جانے نہیں دے سکتا۔ " میجر سکندر حیدر نے تکلیف سے کہتے اسے قابو کیا تھا۔ 

" نن..... نہیں سر وہ.... وہ مجھے چھوڑ کے نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا ۔۔ میں پری، اور بڑی مما کو کیا جواب دوں گا؟ " وہ پاگلوں کی طرح رو رہا تھا۔

" پلیز لیٹ می گو ۔۔۔۔سر پلیز! "

دوسری طرف کرنل اسد فون پر اطلاع ملنے پر سرد ہاتھ پیر لئے کرسی پر ڈھے سے گئے تھے۔۔ نظریں اپنے کیبن میں موجود تراب کی کیپٹن کی وردی میں ملبوس تصویر پر مذکور تھیں ۔۔۔

ذہن کے پردوں پر نجانے کیا کیا منظر لہرا گئے تھے۔

وہ دن جب وہ پیدا ہوا تھا۔ اس وقت وہ مظفرآباد میں پوسٹڈ تھے ۔۔ اور ڈاکٹر مدیحہ بھی وہیں اپنا ٹرانسفر کروا چکیں تھی۔

وہ پہلا موقع تھا جب تراب کو گود میں اٹھائے کرنل اسد کی  آنکھوں سے آنسو بہے تھے اور آج تیس سال بعد ان کی آنکھیں پھر سے بھر آئیں تھیں ۔ واللہ اکلوتے جوان بیٹے کی مرنے کی خبر بہادر سے بہادر انسان کو بھی کمزور کر دیتی ہے۔

لیکن کمال کی ہمت تھی کہ اپنے جذبات کا گلہ گھوٹتے وہ وہیں مصلیٰ بچھائے بارگاہِ ایزدی میں وضو کر کے شکرانے کے نفل ادا کرنے کھڑے ہو چکے تھے۔

" مجھے صبر دے میرے مالک۔۔۔۔ صبر دے۔"

یا اللہ میرے شیر بیٹے کی حفاظت فرما ۔۔ اگر وہ سلامت ہے تو اسے بچا لے مالک اور اگر...... وہ...... وہ شہید ہوگیا تو اس کی شہادت کو قبول فرما۔"  بند آنکھوں سے قطار در قطار آنسو گر رہے تھے ۔

" کیپٹن جواد پلیز ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ ۔۔۔آپ وہاں نہیں جا سکتے! ریسکیو ٹیم بس پہنچ رہی ہے۔ پلیز ہیوو پیشنز۔ "

ادھر جواد کو قابو کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ 

اس کی درد ناک چیخیں مٹی میں لت پت پڑے تطہیر کے نیم بیہوش وجود کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی ۔۔۔۔

اس کی دماغ کی رگیں کھنچنے لگی تھیں جس کے باعث، اسکی سانسیں مدھم ہو رہی تھیں ۔۔ دل میں شدت کی تکلیف اٹھ رہی تھی۔۔۔ وہ اُٹھنا چاہتی تھی لیکن گویا اس کے وجود سے روح کھنچتی محسوس ہورہی تھی اور پھر آنکھیں بند کرنے سے پہلے اس کے لبوں نے  "ابوتراب"  کے نام کی ہلکے سی جنبش کی تھی۔ اور وہ اتنے سخت صدموں کی تاب نا لاتے ہوئے وہ ہوش و خرد کی دنیا سے مکمل بیگانہ ہو چکی تھی ۔۔ 

عین اسی وقت آسمان پر چھائے گہرے بادلوں میں یکدم تلاطم بپا ہوا تھا ۔۔ تیز آندھی چلنے لگی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے زناٹے دار بارش برسنا شروع ہو چکی تھی۔ 

 تھوڑی دیر پہلے جس وادی کی فضا گولیوں کی ترتڑاہٹ اور بارود کی بو سے مہکی رہی تھی۔۔۔۔۔ اب وہاں بارش کے برسنے سے مٹی پھول پودوں کی سوندھی خوشبو فضا کو معطر کر چکی تھی۔ ہر طرف امن و سکون چھا گیا تھا۔ 

وادیِ عنبر میں ایک قیامتِ صغریٰ آ کر گزر چکی تھی۔

بالآخر پاک فوج کے بہادر جوانوں نے اپنی جرآت و جواں مردی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وادیِ عنبر سے دہشت گردوں کے نام نشان کو مٹا کر رکھ دیا ۔ 

آج اِن تمام جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کے ایک بار پھر ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف شجاعت کی عظیم اور لازوال داستان اپنی دلیری اور خون سے رقم کر کے سینکڑوں معصوم جانوں کا خون بہنے سے بچا لیا تھا۔  آج ابوتراب نے اپنا وعدہ وفا کر دکھایا تھا۔

           The End of Season 1

           ******💕💕💕******

ہاں بھئی لوگوں الحمدللہ دوسرا ناول اختتام کو پہنچا ۔۔❤😇

میں نے پوری کوشش کی ہے بہتر سے بہترین لکھنے کی ۔۔

امید ہے پسند آیا ہو دل کردیا قربان❤❤🔥

         *******💕💕💕******

#Dil_Kardea_Qurbaan

#Staytuned


Post a Comment

0 Comments