🔥Shehryar_Sukaina🔥
دل_دھڑکنے_لگا❤
قسط_نمبر 42 (حصہ ب)
ناول_نگار
عین_فاطمہ
ᴅᴏ ɴᴏᴛ ᴄᴏᴘʏ ᴍʏ ᴄᴏɴᴛᴇɴᴛ ᴡɪᴛʜᴏᴜᴛ ᴍʏ ᴘᴇʀᴍɪꜱꜱɪᴏɴ. ᴀʟʟ ʀɪɢʜᴛꜱ ʀᴇꜱᴇʀᴠᴇᴅ ᴛᴏ ᴀʏɴɴ ꜰᴀᴛɪᴍᴀ ᴏꜰꜰɪᴄɪᴀʟ.
" سارین احمد ولد احمد بنگش کیا آپ کو با عوض سکہ رائج الوقت حقِ مہر پانچ لاکھ روپے سالار مظاہر ہاشمی ولد مظاہر حبیب ہاشمی کے ساتھ یہ نکاح قبول ہے؟" مولانا صاحب نے دوبارہ دہرایا مگر سارین خاموش رہی۔
"سارین بولو بیٹا۔"
آمنہ بیگم نے اُسے چپ پا کر ہولے سے شانہ دبایا ۔۔
" سارین میری شہزادی، میں ساتھ ہوں۔ بابا تیرے ساتھ ہے۔ " احمد صاحب نے سرگوشی کی۔
" سارین ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ مولانا صاحب کو جواب دو بیٹا ۔۔" اس بار تو سمانہ نے بھی ہمت دلائی مگر سارین کے لب تو گویا منجمد ہوگئے تھے ۔۔
کمرے سے لیکر صحن تک گھر کا ہر فرد سارین کا اقرار سننے کا منتظر تھا مگر سارین چپ تھی ۔۔ مکمل چپ ۔۔۔ اور سارین کی اِس خطرناک چپ نے سب کے رنگ اُڑا ڈالے تھے ۔۔
" سارین پلیز بولو ۔۔۔" سُکینہ نے اُس کے پاس بیٹھتے دھیرے سے ہاتھ دبایا تو سارین کے آنسو سُکینہ کے ہاتھ پہ گرے اور وہ نفی میں سر ہلانے لگی جس پہ سُکینہ کا دل کٹ کے رہ گیا۔
" سارین تمہیں میری قسم ہے پلیز اپنا اور میرے بھائی کا دل مت توڑو ۔۔" وہ شدت سے اُس کے گلے باہیں ڈالتی رو دی جس پہ بالآخر سارین اپنی آنکھیں میچ کر لبوں کو جنبش دے ہی ڈالی۔
" قق۔۔قبول ہے۔"
سارین کے اقرار پہ یکایک سب کے مرجھائے چہرے واپس کھل اٹھے تھے اور احمد صاحب آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے سارین کا ماتھا چوم گئے ۔۔
سمانہ اور کہکشاں بیگم بھی باری باری آمنہ بیگم کو مبارکباد دینے لگیں اور سُکینہ اُن سب کو خوش دیکھ وہاں سے اٹھتی باہر آگئی جہاں اب مولانا صاحب سالار کے دستخط لے رہے تھے۔
اُس چھوٹے سے کچے مکان میں ہر سو خوشی کا سماء تھا ۔۔ لیکن دفعتاً نکاح کے مکمل ہوتے ہی شبیر علی ہاشمی کا یوں اٹھ کر چلے جانے پہ شہریار سمیت سب کی صورت اتری تھی مگر وہ بیرسٹر حسن اور شہیر کی اعلیٰ ظرفی تھی جو ہر بار ہی سنجیدہ صورتحال کو بھی اپنی مزاج کی نرمی و شائستگی سے سنبھال لیا کرتے تھے۔
" اِس گھر سے ہم آج بہو نہیں بلکہ اپنی بیٹی لیکر جارہے ہیں احمد صاحب! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم سب اپنی بیٹی کا بھرپور خیال رکھیں گے ۔۔" بیرسٹر حسن کے مستکم و ملائم انداز پہ احمد صاحب کی آنکھیں چھلک پڑیں ۔۔
" بہت شکریہ صاحب ۔۔ آپ نے مجھ غریب پہ جو احسان کیا ہے وہ میں ۔۔۔ "
" ارے ۔۔۔ " احمد صاحب کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی بیرسٹر حسن انہیں ٹوکتے اپنے گلے سے لگا گئے تھے۔
" سُکینہ، گڑیا مما سے کہیں سارین گڑیا کو رخصتی کے لیے لے آئیں ۔۔
" جی بھیا ۔۔" شہیر کے ازلی محبت سے چُور انداز پہ وہ سر ہلاتی اندر چلی گئی۔
کچھ ہی ساعات میں سارین کو رخصتی کے لیے صحن میں لایا جاچکا تھا۔ وہ مسلسل رو رہی تھی ۔۔ رخصتی کا سُن کر تو اُس کے آنسوؤں میں مزید روانی آ چکی تھی ۔۔
ماں باپ کی محبت ہر محبت پہ حاوی تھی ۔۔
ایک دن میں اپنے ماں باپ کا گھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اُن امیر کبیر لوگوں کے گھر جانے کا سوچتے سارین کا معصوم دل کرلانے لگا تھا ۔۔ سو خدشات، سو خیالات اُسے خوفزدہ کررہے تھے ۔۔ نجانے سالار اُس کے ساتھ کیسا سلوک برتنے والا تھا اور سالار کے دادا ابو ۔۔۔
اُنہیں سوچ کر تو سارین کی جان ہی ہوا ہو رہی تھی ۔۔
وہ مغموم اور سوگوار حُسن لیے اپنی ماں، ثانیہ، تایا تائی اور پھر سب سے آخر میں احمد صاحب سے لپٹ کر شدت سے رونے لگی ۔۔
" مم۔۔مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے بابا ۔۔" ہچکیوں کے درمیان اس کا وہ معصوم طفلانہ سا انداز سب کو ہی اُداس کر گیا تھا ۔۔
" شش۔۔میرا بہادر بیٹا! میں ہمیشہ تیرے ساتھ ہوں ۔۔ اپنے باپ کا سر کبھی جھکنے مت دینا سارین! تیرے جہیز میں مال و دولت نہیں بلکہ محبت، عزت، حیا، فرمانبرداری، قناعت اور صبر ساتھ بھیج رہا ہوں ۔۔ اِن چیزوں کا ساتھ کبھی مت چھوڑنا ۔۔ کبھی وہ کام نہ کرنا جس سے تیرے شوہر یا اُس کے گھر والوں کا دل دکھے بیٹی ۔۔ اُن سب کو ہمیشہ اپنا سمجھنا تاکہ وہ بھی تجھے اپنی بیٹی سمجھیں ۔۔ اور جب مشکلات ہوں تو اپنے جذبات پہ عقل کو حاوی رکھنا ۔۔
عورت کا جہاد اچھی شوہرداری ہوتی ہے بیٹی ۔۔ اپنے شوہر کو کبھی شکایت کا موقع مت دینا ۔۔ اپنے غریب ماں باپ کی امیر تربیت کی ہمیشہ لاج رکھنا سارین ۔۔
خدا تجھے زندگی کی ہر خوشی نصیب کرے ۔۔ ہماری فکر مت کرنا ۔۔ تیرا بابا اِن دونوں کا خیال رکھے گا ۔۔ اللہ کی امان میں شہزادی ۔۔" احمد صاحب کمزور لہجے میں کہتے محبت سے اُس کا ماتھا چوم گئے جبکہ سارین نے اُن کی ہر بات پہ سر ہلاتے واپس اُن کے سینے پہ سر ٹکا دیا۔
" میری بیٹی میری کُل دولت ہے سالار صاحب! میں نے اُسے دنیا کے عیش و آرام دیکر نہیں بلکہ اپنی محبت و الفت کی چھاؤں میں پالا ہے ۔۔ اُس سے کبھی کوئی چُوک ہوجائے تو اُسے اُسی محبت سے سمجھا دیجیے گا ۔۔ یہ سخت لہجوں کی عادی نہیں ہے۔" فضہ نے سارین کو علیحدہ کیا تو سالار کے سامنے احمد صاحب کا یوں دست بستہ گزارش کرنا جہاں سالار کو شرمندہ کر گیا تھا وہیں اُن کی سارین سے اتنی محبت دیکھ سُکینہ کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر آئی تھیں ۔۔
ہاں اُسے آج شدت سے اپنی بہت بڑی محرومی کا احساس ہوا تھا ۔۔ ہاں وہ دو مضبوط رشتے رکھنے کے باوجود بھی اِس شفقت اور بے لوث محبت سے محروم تھی ۔۔
اُس کے سر پہ اُس کا باپ نہیں تھا جو شہریار سے بھی اس طرح اپنی بیٹی کی خوشیوں کی ضمانت لے پاتا ۔۔۔
سُکینہ کی نظریں بے ساختہ ہاتھوں میں قرآن پاک پکڑے سنجیدہ کھڑے شہریار پہ اُٹھیں تھی جو خود بھی اُس ہی جانب متوجہ تھا اور بس اُن دونوں کا ہی دل پسیج کر رہ گیا تھا ۔۔
وہ تیری آنکھ ہو یا سنگِ ملامت کی چبھن
کون پہنچا ہے میرے زخم کی گہرائی تک ۔۔
" پلیز احمد انکل مجھے شرمندہ مت کیجیئے ۔۔ آپ کی بیٹی میری ذمے داری ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں اُسے کبھی ہرٹ نہیں کروں گا۔ کوشش کروں گا کہ میں بھی سارین کو اُتنا ہی محبت دے سکوں جتنی آپ نے دی ہے ۔۔" وہ اُن کے ہاتھ تھامے گلے سے لگتا سرگوشی نما بولا تو احمد صاحب کا دل شکرِ خداوندی سے سرشار ہوگیا ۔۔
" چلو بیٹا ۔۔" سمانہ بہت محبت سے سارین کا شانہ تھاما اور شہریار نے واقعی اُس کے بھائی ہونے کا پورا حق ادا کرتے سارین کو قرآن کے سائے میں اُس گھر سے گاڑی میں سوار کروایا ۔۔
" تھینکس ولی ۔۔ مجھ پہ تمہارا بہت بڑا احسان ہے ۔" سالار نے گاڑی میں بیٹھنے سے قبل بازو پٹی میں جکڑے کمزور سے ولی کو گلے لگاتے شکریہ ادا کیا۔
َ" نہیں میرے دوست! وہ صرف تمہاری ہی تھی ۔۔ خیال رکھنا اُس کا اور خبردار جو تم نے اُسے زرا بھی رلایا۔" وہ خوشدلی و مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے مسکرایا تو سالار بھی مسکراتے دوبارہ اُس کے گلے سے جا لگا ۔۔ اور پھر احمد صاحب اور اُن کے گھر والوں سے آخری وداع لیتے ہاشم ولا کے تمام فرد گاڑیوں میں بیٹھ کے وہاں سے روانہ ہوگئے اور آمنہ بیگم اور ثانیہ مغموم دل لیے احمد صاحب سے لپٹ گئیں ۔۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ سب ہاشم ولا کے پورچ میں موجود تھے ۔۔ اُن کے گھر کے باہر ایک بار پھر میڈیا کا جمِ غفیر جمع تھا جسے شہیر اور شہریار نے کافی سمجھداری سے ڈیل کرتے ہفتے بھر بعد سارین سالار کے گرینڈ ولیمے میں شامل ہونے کی دعوت دے ڈالی تھی ۔۔
اب نیوز چینل پہ ہر طرف اِسی خبر کے چرچے تھے ۔۔
" او مائی گاڈ زارون! آئی کانٹ بلیوو سالار میری دیٹ مس پنکچر!! " ایل ای ڈی پہ شاکی نظریں جمائے وہ ثناء تھی جو صدمے میں ڈوبی زارون کو کال پہ مطلع کر رہی تھی ۔۔
" کانٹ بلیوو ۔۔۔ یہ تو سچا والا عاشق نکلا باس! " زارون اِس شاکنگ خبر پہ بھی اپنی پھڑکتی رگ پہ قابو نہ کر سکا تھا۔
" شَٹ اَپ زارون!!! اگر شیری نے بھی اُس تھرڈ کلاس سُکینہ سے شادی کر لی تو میرا کیا ہوگا ۔۔؟ " ثناء کو اُسوقت محض یہی فکر کھائے چلی جارہی تھی جبکہ زارون شہریار کے ذکر پہ اب سنجیدہ ہوکر کال کاٹ گیا تھا۔
" زز۔۔زارون ؟؟" ثناء نے حیرت سے فون کو دیکھا اور پھر اپنا سر تھام گئی۔
" نو ۔۔ نو آئی کانٹ لیوو شیری فار دیٹ سُکینہ۔۔ ہی از مائن۔ " ثناء کی آنکھوں میں پھر وہی ضد تھی۔
اِدھر میڈیا والوں کے جانے کے بعد سالار گاڑی سے اترا اور گھوم کے سارین کی طرف آیا اور دروازہ کھول کر سب کی موجودگی کے پیشِ نظر اپنا ہاتھ بڑھا گیا۔۔ سارین پہلے تو ٹھٹھکی مگر پھر خود بھی سب کے پیشِ نظر اُس کی مضبوط ہتھیلی پہ اپنا نازک مرمریں کپکپاتا ہاتھ رکھ ہی گئی ۔۔
نکاح کا اثر تھا یا محبت کی تاثیر وہ دونوں کے اندر ایک کرنٹ سا دوڑا جس پہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرا گئے ۔۔
سارین کی ایک طرف سمانہ اور دوسری جانب کہکشاں بیگم تھیں ۔۔ فضہ اِس ماحول میں بھی کھکھلا کر اُن سب کی مووی بنا رہی تھی جبکہ سُکینہ زیدان کو گود میں لیے اُس سے اُداسی کی وجہ پوچھنے لگی ۔۔
" میرا ہیبڈسم ریبٹ اتنا اُداس کیوں ہے بھئی؟ "
" لالار اینڈ ہز وائف اگنورڈ می ۔۔" اُس کا معصومیت بھرا شکوہ اور سالار کو لالار پکارنے پہ سُکینہ کے لب بے ساختہ مسکرا اٹھے تھے۔
" اوہ، لالار کے بچے نے میرے گڈے کو اگنور کیا۔۔؟ اُس کی اتنی ہمت!! ابھی بتاتی ہوں۔"
" نو کینہ !! آئی وانٹ ٹاک دیم۔ " وہ جو سب کے ساتھ جاتے سالار کو مصنوعی خفگی سے دیکھتی روکنے لگی تھی زیدان نے اپنا معصوم ہاتھ اُس کے لبوں پہ جماتے گردن اکڑائے کہا اور پھر نیند کے خمار میں ڈوبی آنکھیں لیے اُس کی گردن میں منہ چھپا گیا۔
" ایسا نہیں کہتے ریبیٹ۔۔ سالار چاچو اینڈ سارین چاچی لووز یو سو مچ ۔۔ وہ آج اُن کا اسپیشل ڈے ہے نا تو بس اسپیشل ڈے پہ ہر لڑکا اپنی وائف کے ساتھ ہی رہتا ہے تاکہ اُسے لونلی فِیل نہ ہو ۔۔ چاچی پہلی بار ہمارے گھر آئی ہے نا ۔۔" وہ اُس کی پشت سہلاتے مٹھاس بھرے شیریں لہجے میں اُسے اُسی کے معصوم انداز میں سمجھانے لگی۔
" شیارر بھی کینہ کے اسپیشل ڈے پہ ساتھ تھا؟ " زیدان نے اچانک سر شانے سے اٹھایا تو سُکینہ اُس کے سوال پہ گنگ رہ گئی۔
آنکھوں میں مہینہ بھر پہلے کا منظر گھومنے لگا جب وہ نکاح کے فوراً بعد اُسے بنا دیکھے ہی گھر سے نکل کر چلا گیا تھا۔ سُکینہ نے بڑی مشکل سے اپنے ہونٹوں کی مسکراہٹ برقرار رکھتے سر ہلایا مگر دل میں ایک ہوک سی محسوس ہوئی تھی۔
" پر شیارر تو چلا گیا تھا صبح ۔۔" زیدان کے اگلے جملے پہ سُکینہ کو محسوس ہوا جیسے کسی نے کھینچ کے اُس کے منہ پہ طمانچہ دے مارا ہو ۔۔ اُسے اندازہ نہیں تھا کہ زیدان کو وہ سب بھی یاد ہوگا پر بلاشبہ وہ ایک سمجھدار اور گہری اوزرویشن رکھنے والا بچہ تھا ۔۔
" ہہ۔۔ہاں وہ ۔۔شیار چاچو کو بہت ارجنٹ کام یاد آگیا تھا نا تو چاچو وہ کرنے چلے گئے تھے ۔۔ پر ابھی آپ دیکھنا سالار چاچو اور سب بڑے سارین چاچی کو گھر دکھائے گے اور پھر سب تھوڑی سی ریچوَلز کریں گے ۔۔پھر چاچی کو چاچو کے روم میں لے جائیں گے تاکہ وہ دونوں ریسٹ کرسکیں ۔۔ بہت تھک گئے ہیں نا سب؟ " سُکینہ نے خود کو کمپوز کرتے اُسی محبت سے اُسے پیار کرتے کہا ۔
" آئی وانا سلیپ کینہ ۔۔ "
" میرے گڈے کو نیند آرہی ہے ۔۔ چلو کینہ اپنے شہزادے کو روم میں لے جاتی ہے ۔۔" وہ فضہ کو کان میں بتاتی زیدان کو اپنے ساتھ اندر لے آئی۔ اُس کے ریشمی بال سہلاتے ہوئے اُس کا رخ شہیر کے کمرے کی طرف تھا ۔۔ زیدان اور اُس کی سرگوشی نما گفتگو ہنوز جاری و ساری تھی ۔۔
" اور یہ ہم اپنے کمرے میں سونے آ گئے ہیں قارئین ۔۔ سب سے پہلے ہم اپنے ریبیٹ کے کپڑے چینج کریں گے ۔۔ پھر ریبٹ کا دودھ تیار کریں گے اور پھر ریبٹ کی پاری سی نیند کو بلائیں گے ۔۔" سُکینہ اُسے بیڈ پہ بٹھا کر وارڈراب سے کپڑے نکالنے لگی۔
پھر اُس نے پانچ سے دس منٹ میں زیدان کو شب خواہی کی لباس میں تیار کرتے اُس کے بال اپنے پسندیدہ طریقے سے جمائے، دودھ تیار کیا اور پلانے کے بعد گلاس سائیڈ ٹیبل پہ رکھتی بیڈ پہ اُس کے ساتھ آ لیٹی۔
" چلو اب آپ جلدی جلدی اپنی آئیز کلوز کرو اور ﷲ تعالیٰ سے پرے کر کے سوجاؤ کیونکہ صبح چاچو اور چاچی سب سے پہلے اپنے پیارے ریبٹ سے ملیں گے اور خوب ساری مستی کریں گے اور کھیلیں گے بھی اور ہوسکتا ہے ریبٹ کو کوئی گفٹس بھی دے دیں ۔۔ "
" سچی کینہ؟" زیدان کے یہ سنتے ہی خرگوش سے دانت باہر نکل آئے۔
" سچی سچی بالکل سچی ۔۔ چلو اب آپ سوجاؤ۔ " تھوڑی دیر میں ہی زیدان سو چکا تھا۔ سُکینہ نے اُسے سوتے دیکھ چٹاچٹ اُس کے بھرے بھرے گال چومے اور پھر اُس کے اطراف تکیے جما ہی رہی تھی کہ دروازے پہ ایستادہ شبیر علی ہاشمی کو دیکھ اُس کے رنگ اُڑ گئے ۔۔
" آا ۔۔ آپ!! "
" ہم اسٹڈی میں انتظار کر رہے ہیں ۔" وہ اُسی رعب و رعونت سے کہتے واپس چلے گئے تھے جبکہ سُکینہ کا دل انجانے خدشے کے باعث بہت بری طرح دھڑکنے لگا تھا۔
دوسری جانب سالار اور سارین اب سب بڑوں کے درمیان ہال میں بیٹھے کچھ خاندانی رسموں کو ادا کر رہے تھے۔ شہریار بھی شہیر کے ساتھ خاموش کھڑا اُن دونوں کی خوشیاں دیکھ مسکرا رہا تھا ۔۔
ہاں آج وہ سالار سے اپنی محبت کا حق ادا کر چکا تھا مگر سُکینہ ۔۔۔ وہ کہاں تھی؟
اُس کی خوشیاں ۔۔۔ اُس کا حق ۔۔ اُس کی محبت کہاں تھی؟
وہ کیسے دادا ابو کو اپنی محبت چھین لینے سے روک پاۂے گا ۔۔۔
کس طرح اُنہیں سمجھائے گا وہ اب اُس لڑکی کے بغیر اک پل نہیں رہ سکتا جس سے وہ کبھی شدید چڑتا تھا ۔۔
کس طرح بتائے گا کہ سُکینہ حبیب اب اُس کے قلب میں ہی نہیں بلکہ اُس کی روح میں بس چکی ہے ۔۔
بظاہر تو وہ سب ساتھ کھڑا اپنے بھائی کی خوشیوں میں شریک تھا لیکن اس کا دل و دماغ اپنی زندگی اجڑنے کے غم میں سلگ رہا تھا ۔۔
بار بار سُکینہ کی وہ خاموش نگاہیں اُسے تنگ کر رہی تھیں ۔۔ کانوں میں اُس کی ہنسی کی جلترنگ بجتی سنائی دے رہی تھی ۔ اُس کا وہ کل رات خود کو کبھی نہ چھوڑنے کا مانگا گیا وعدہ یاد آرہا تھا ۔۔
لمحے میں آنکھیں ضبط کی شدت سے گلابی پڑنے لگیں، کنپٹی کی رگیں پھول گئیں، جبڑے چٹانوں کی مانند سختی سے تن گئے اور وہ اب رسومات پوری ہوتے دیکھ معذرت کرتے اپنے روم میں جانے سیڑھیاں عبور کرنے لگا۔
اِدھر سمانہ اور فضہ چند رسومات کے بعد اب سارین کو سالار کے وسیع و عریض اور خوبصورتی و نفاست سے سجے کمرے میں لے آئیں تھی۔
سالار کا اتنا بڑا کمرہ دیکھ سارین کی آنکھیں حیرت و ستائش سے پھیل گئیں۔۔
اُس کے گھر کے دو کمروں برابر وہ ایک کمرہ تھا جس میں بیش بہا قیمتی و جدید آرائش و آرام کا سامان موجود تھا۔ کمرے کے وسعت میں پڑا ڈبل بیڈ، دبیز پردے، ملائم قالین، مہنگے صوفے، بڑے بڑے واڈراب اور پول کی طرف کھلتے گلاس ونڈوز ۔۔ سارین وہ سب ہق دق سی دیکھ رہی تھی ۔۔
" میں تم سے شرمندہ ہوں سارین کہ سالار کی نادانی کی وجہ سے تمہیں وہ سب برداشت کرنا پڑا، پر میرا بیٹا بہت اچھا ہے ۔۔ اُس کا دل بہت پیارا، سچا اور ہمدرد ہے ۔۔اُسے بہت کم ہی غصہ آتا ہے لیکن جب آتا ہے تو پھر اُسے سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ میری بیٹی میرے بیٹے کی اِس خامی کو اپنی محبت اور سمجھداری سے دور کردے گی، ہے نا؟" سمانہ نے جس محبت و مان سے سارین کی تھوڑی تھامے پوچھا سارین لرزتی پلکیں لیے اثبات میں سر ہلاگئی پر دل میں سالار کے غصے کا سوچ سوچ کر شدید ہال اٹھ رہے تھے ۔۔
اسوقت تو جذبات میں پانچوں انگلیاں چھاپ ڈالی تھیں مگر سارین احمد کو خبر نہ تھی کہ ایک ہی رات میں اُس کی زندگی کا پانسہ یوں پلٹ جائے گا۔
" چلو اب تم آرام کرو میں سالار کو بھیجتی ہوں ۔۔" سمانہ اُسے پیار کرتی چلی گئی اور سارین گھبراہٹ و خوف سے ملی جلی کیفیات لیے دیوار پہ لگی سالار کی خوبرو تصویر دیکھنے لگی تبھی دروازہ کھلنے کی آواز پہ اُس کے ہاتھ پیر سرد پڑے اور ماتھا عرق آلود ہوگیا ۔۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
" دستخط کرو اِن کاغذات پہ لڑکی ۔۔" منظر ہے ہاشم ولا کے اسٹدی روم کا جہاں شبیر علی ہاشمی اپنی دراز سے کچھ کاغذات سُکینہ کے حوالے کرتے کرختگی سے بولے جنہیں دیکھ سُکینہ کی آنکھیں پھٹ گئیں اور وہ اخیر بے بسی و سماجت سے نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔
" نن۔۔نہیں پلیز ۔۔ اا۔۔ایسا مت کیجیئے دادا ابو ۔۔ مم۔۔میں شیرو کے بغیر ۔۔نن۔۔نہیں رہ سکتی۔" وہ بے جھجھک اُن کے گھٹنوں پہ جھکی تھی مگر نجانے کیسا پتھر دل تھا جو اُس غریب کی گڑگڑاہٹ پہ بھی کسی صورت پگھلنے تیار نہ تھا۔
" اپنے ڈرامے بند کرو لڑکی! یہ بلینک چیک پکڑو اور ہمارے شیرو کی زندگی سے دور چلی جاؤ۔ "
" آپ میری محبت کی یوں توہین نہیں کرسکتے دادا ابو ۔۔ میں شہریار کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔" اُس کی آواز کی نرمی اب مفقود تھی۔ بھیگی آنکھوں میں انتہا کا درد تھا۔ آواز آنسوؤں کے باعث روندھ گئی تھی۔
" اور ہم تمہیں اپنے پوتے کی زندگی میں اک پل بھی برداشت نہیں کر سکتے لڑکی ۔۔ چپ چاپ اِن کاغذات پہ دستخط کرو ورنہ ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ " وہ تنفر سے اُس کے ہاتھ میں زبردستی قلم تھماتے بھینچی آواز میں دبدبے سے غرائے جس پہ سُکینہ کی ہچکیاں بند گئیں ۔۔
" کیوں کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ ایسا؟ کیوں میری حالت پہ ترس نہیں آرہا آپ کو؟" وہ عاجزی سے اُن کے دونوں ہاتھ آنکھوں سے لگاتی سر جھکائے شکوہ کناں ہوئی جس پہ اُن کی رگیں تن سی گئیں ۔۔
" تم سے بہتر اِس کیوں کا جواب اور کون جانتا ہے لڑکی ۔۔۔ دور رہو ہم سے۔" شبیر علی ہاشمی اُس کے ہاتھ جھٹکتے کھڑے ہوگئے تھے جبکہ سُکینہ اُن کی سنگدلی پہ تڑپتی چلائی۔
" کیوں دور رہوں ۔۔۔؟ کیوں دادا ابو؟ اگر شیرو کے لیے اتنی محبت ہے تو میرے لیے اتنی نفرت کیوں؟؟ "
" خبردار لڑکی جو ہمارے شیرو سے اپنا موازنہ کیا ۔۔ وہ ہمارا فخر ہے۔۔ ہمارا پوتا ۔۔ ہمارا خون ۔۔۔" وہ پلٹ کر دانت پیستے دہاڑے مگر سُکینہ کے جملے نے اُن کا انگ انگ سلگا دیا تھا۔۔
" اگر شیرو آپ کا خون ہیں تو میں بھی آپ کا خون ہوں شبیر علی ہاشمی!!
آپ کی پوتی اور اِس خاندان کی بڑی بیٹ۔۔۔۔۔"
" چٹاخ!! " یکبارگی اُن کا زوردار تھپڑ سُکینہ کا جملہ سلب کر گیا اور وہ بے یقینی کی انتہا پہ، اپنے گال پہ ہاتھ رکھے کھڑی ڈبڈباتی آنکھوں سے اُس ظالم شخص کی غیظ و غضب سے بھری انگارہ آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
سفید قمیص شلوار میں اپنی خوشبوؤں میں رچی بسی شخصیت لیے کمرے میں داخل ہوتا وہ سارین احمد کی دھڑکنیں ساکت کر گیا تھا۔
وہ سخت گھبراہٹ و حیا سے پلکیں تیزی سے جھپکاتے اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔
کمرے میں موجود سالار ہاشمی اب کوئی غیر نہیں بلکہ اُس کا محرم بن چکا تھا جو اُس پہ ہر لحاظ سے پورا پورا حق رکھتا تھا۔
سالار کمرہ لاک کرتے دڑیسنگ کی طرف بڑھا اور اپنی گھڑی، والٹ اور فون رکھ کر کپڑے لیے بنا کچھ کہے باتھ روم میں بند ہو گیا۔ باتھ روم کا دروازہ بند ہونے پہ سارین نے سر اپنا جھکا سر اٹھایا اور پرنم نگاہوں سے اُس طرف دیکھنے لگی ۔۔
جو بھی تھا کم از کم سالار سے اُسے یوں بے مروتی سے نظرانداز کر جانے کی توقع نہ تھی ۔۔ تبھی اُس کا دل بھر آیا اور آنسو ایک بار پھر بھل بھل بہنے لگے۔
تھوڑی دیر بعد سالار گرے ٹراؤزر اور بلیک ٹی شرٹ میں اپنے بال رگڑتے نکھرا نکھرا باہر نکلا تو سارین کو سوں سوں کرتے دیکھ اُس کا ہاتھ ٹھہر گیا ۔۔
وہ بے آواز رو رہی تھی ۔۔ سالار کے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی اور وہ دھیمے دھیمے چلتا ہوا سارین کے پاس آیا اور بلا جھجھک اُس کے پاس گھنٹوں کے بل جھک کر سنجیدگی سے بیٹھ گیا جس پہ سارین کی بھیگی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا ۔۔ پلکیں خفت و حیا کے بوجھ سے مزید جھک گئیں ۔۔ چہرہ تمتا رہا تھا اور پلکیں لرزتی اُس کے چڑیا جیسے دل کی غماذی کر رہی تھیں ۔۔
" میں انتظار کروں گا اسوقت کا جب تم مجھے میری ہر غلطی کے لیے دل سے معاف کرکے اپنی رضا و مرضی سے سارین احمد سے سارین سالار ہاشمی بنو گی ۔۔۔
یہ سچ ہے کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا چاہے تم ساری زندگی مجھ سے نفرت ہی کیوں نہ کرو لیکن وعدہ کرتا ہوں میری یہ محبت تمہیں کوئی تکلیف نہیں دے گی ۔۔ یہ اب صرف میرے دل میں رہے گی تاکہ دوبارہ تمہیں میری پُر خلوص محبت پہ سوال کرنے کا کوئی موقع نہ ملے ۔۔
آج سے یہ گھر ، یہ کمرہ، یہاں لوگ سب تمہارے ہیں ۔۔ تم جیسے چاہو یہاں رہ سکتی ہو ۔۔ کوئی تمہیں کسی چیز کے لیے نہ ہی روکے گا اور نا ہی فورس کرے گا ۔۔
ان شاءﷲ تمہیں یہاں کوئی برابلم پیش نہیں آئے گی لیکن اگر پھر بھی ایسا لگے تو بلا جھجھک مام یا پھر مجھ سے کہہ دینا ۔۔
یہ وہی تحفہ ہے جو کل رات تم نے پھینک دیا تھا پر میں اِسے بہت دل سے تمہارے لیے لایا تھا ۔۔ تمہارا دل مانے تو رکھ لینا ورنہ دوبارہ پھینک دینا ۔۔
اور ہاں وارڈراب میں تمہارے کپڑے موجود ہیں چینج کر کے یہاں آرام سے سو جاؤ ۔۔ گڈ نائٹ! " وہ بنا اُس کی طرف ایک نظر کا تبادلہ کئے ہی اپنی بات تمام کرتا وہ پینڈنٹ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر بیڈ سے تکیہ اٹھائے صوفے پہ جا لیٹا تھا جبکہ سارین کی آنکھیں پتھرا سی گئی تھیں ۔۔
دل رنج، ملال و ندامت اور اُس کی بے اعتنائی سے پھٹتا محسوس ہوا تھا لیکن وہ اپنے باپ کی نصیحت یاد کر کے صبر کرتی اپنے آنسو پونچھ کر اُٹھی اور پھر وارڈراب سے ایک جوڑا نکال کر خود بھی چینج کرنے باتھ روم میں بند ہوگئی۔۔
" تمہارا دل دھڑکنے کا میں انتظار کروں گا سارین ۔۔۔ شاید یہی میری سزا ہے۔"
سالار نے اُس کے جاتے ہی آنکھیں کھولی تھیں جن میں موجود تکلیف کا پانی چھلکنے کو بیتاب تھا لیکن وہ سختی سے داڑھ پہ داڑھ جمائے بازو آنکھوں پہ رکھتا رُخ پھیر گیا۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
" خبردار ۔۔ خبردار لڑکی جو تم نے اپنے گندے وجود کو ہمارے نجیب و باوقار خاندان سے منسوب کرنے کی جرات بھی کی! ہم تمہاری زبان کھینچ لے گے ۔۔
نہیں ہو تم ہمارا خون ۔۔
تم اُس دھوکے باز عورت کی بیٹی ہو جس کے نہ ماں کا پتا تھا نا باپ کا ۔۔۔
نہیں ہے تمہارا کوئی خاندان ۔۔۔
پھانسا تھا میرے بیوقوف بیٹے کو تمہاری اُس ماں نے اپنے معصومیت کے جال میں، جس طرح تم نے اُس بے حیا کے کہنے پہ آج ہمارے شیرو کو پھانس لیا ۔۔ " وہ باقاعدہ اُس معصوم لڑکی کا بازو دبوچے سفاکیت کی آخری حدوں کو پار کر کے اُس کے دل کے ٹکڑے کر رہے تھے جبکہ سُکینہ تو گویا بے جان ہوچکی تھی ۔۔وہ منجمد وجود لیے اُن کی انتھک نفرت اور وہ اذیت برداشت کر رہی تھی ۔۔ اُس تھپڑ سے زیادہ سخت اُن کے وہ الفاظ تھے جو اُس کی معصوم ماں کے لیے کسی زہریلے ناگ کی طرح پھنکار رہے تھے۔
" تمہاری اُس بے حیا ماں اور قاتل ماموں کی بدولت ہمارے مظی کی جان۔۔۔"
" بس ۔۔۔!! بس دادا ابو بس ۔۔ میں اپنی حیادار ماں یا بے قصور ماموں کے خلاف ایک لفظ اور نہیں برداشت کروں گی ۔۔" ابھی وہ مزید زہر اُنڈیل ہی رہے تھے جب وہ اپنا بازو اُن کی گرفت سے چھڑاتی اچانک بپھری شیرنی کی طرح غرائی جس پہ شبیر علی ہاشمی دنگ رہ گئے۔
" اپنی نفرت کی آگ میں آپ اتنے اندھے کیسے ہوسکتے ہیں؟ نہیں ہیں میری مما اور ماموں قصوروار ۔۔ جھوٹ تھا وہ سب جو آپ نے دیکھا ۔۔ جو آپ نے سنا ۔۔۔ نہیں ہیں جون ماموں کسی کے قاتل ۔۔۔۔"
" چپ کرو لڑکی! تمہاری زبان کھینچ لیں گے ہم ۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے سالوں بعد وہ صلہ تمہارے ذریعے اس گھر میں داخل ہوسکے گی؟ اُسے جا کر بتا دینا کہ ہم تمہیں اپنا خون نہیں مانتے ۔۔ نہ ہی کبھی اُس بے حیا عورت کو اپنی بہو تسلیم کریں گے ۔۔ سمجھی تم!! اب اِن کاغذات پہ دستخط کرو اور نکل جاؤ ہمارے شیرو کی زندگی سے ۔۔ تم جیسی لڑکی ہمارے شیرو کے لیے توہین کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔
میں جانتا ہوں یہ سب حسن نے شیرو کو بلیک میل کر کے کیا ورنہ اُس کی رگوں میں ہمارا خون دوڑتا ہے ۔۔ وہ تم جیسی لڑکیوں پہ نگاہ ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا تھا ۔۔ کہاں میرا شہزادوں سا حَسین پوتا اور کہاں تم اُس لالچی لاوارث، بے حیا عورت کی دھوکے باز بیٹی ۔۔۔ دستخط کرو اِس پہ اور چلی چاؤ یہاں سے دور ۔۔۔۔ " وہ لفظ بہ لفظ زہر اگلتے اس کے قریب آ کر ایسا دہاڑے کہ سُکینہ سہم گئی۔
اتنی نفرت، اتنی تزلیل، اتنی حقارت، اتنا تکبر، اتنا گھمنڈ، اتنی سنگ دلی ۔۔۔۔
وہ بہتی آنکھوں میں بے یقینی لیے اُن کی غیظ و غضب سے سُرخ صورت دیکھ رہی تھی اور پھر اُس نے اُن زبردستی پکڑائے گئے کاغذات پہ اک بے درد نظر ڈالی ۔۔۔ کپکپاتی انگلیوں سے قلم اُٹھایا اور اُن کی جانب پلٹی ۔۔
"میں، سُکینہ شہریار حسن ہاشمی بنتِ مظاہر حبیب ہاشمی اپنے خدا کو حاضر ناظر جان کر آپ کی انا کی تسکین کے لیے اِس اکلوتے قیمتی رشتے سے دستبردار ہوتی ہوں۔۔لیکن ایک بات آپ بھی جان لیجیے ریٹائرڈ جسٹس شبیر علی ہاشمی، آپ مجھے جبراً شیرو کی زندگی سے تو نکال رہے ہیں لیکن اُن کے دل سے کبھی نہیں نکال سکیں گے جس طرح مما کو بابا کے دل سے نہیں نکال سکے ۔۔ اور یہی آپ کی بے جا نفرت کی ناکامی کے لیے کافی ہے ۔۔
آج میں آپ کو اپنے اوپر کیے گئے اِس سنگین ظلم کے لیے ابھی اور اِسی وقت معاف کرتی ہوں دادا ابو ۔۔۔
لیکن اپنی بےقصور مما اور ماموں کے لیے کبھی معاف نہیں کروں گی ۔۔ عنقریب سچ آپ کے سامنے ہوگا اور تب آپ بہت تکلیف محسوس کریں گے ۔۔ "
وہ بے دردی سے اپنی آنکھیں رگڑتی سائن کر چکی تھی ۔۔ اُس کے اندر کچھ بہت زور سے ٹوٹا تھا ۔۔ جیسے کانچ کے ٹکڑے جو اُسے اب باقاعدہ اپنے سینے میں پیوست ہوتے محسوس ہورہے تھے ۔۔
" آئیم سوری شیرو ۔۔ آئی لوو یو سو مچ۔" وہ اُن کاغذات کو برستی آنکھوں سے دیکھتی زیرلب بڑبڑائی اور پھر واپس اُسی لفافے میں رکھ کے اُس بے رحم پتھر دل، جذبات سے عاری شخص کے ہاتھ میں رکھتی جانے لگی لیکن شاید شبیر علی ہاشمی کو اتنی بے حسی دکھا کر بھی سکون نہیں ملا تھا تبھی اُسے آواز دیتے روک گئے۔
" رکو لڑکی! ٹھہر جاؤ ۔۔۔ تمہارے اِس زعم کو ہم نے ابھی خاکستر نہ کردیا تو ہم بھی شبیر علی ہاشمی نہیں ۔۔
ہمارا شیرو تمہیں ابھی اور اسی وقت اپنی زندگی سے دودھ میں گری مکھی کی طرح نکال پھینکے گا ۔۔ سمجھیں!! " وہ اُس کے آنسوؤں کی پرواہ کیے بغیر انٹرکام اٹھا کر نوکر کو شہریار کو فی الفور اسٹڈی روم میں پہنچنے کا حکم دینے لگے۔
" اتنا مت توڑیں مجھے کہ مجبوراً بابا سے آپ کی شکایت کرنی پڑے دادا ابو ۔۔ وہ بہت محبت۔۔ کرتے تھے مجھ سے ۔۔۔
اپنے بیٹے سے ۔۔بھی کئی۔۔ گنا زیادہ ۔۔۔
وہ آپ کو معاف۔۔ نہیں ۔۔ کریں گے ۔۔" وہ کس یاس و اذیت سے اپنے آنسو اندر اتارتی پھر پلٹ کر جانے لگی مگر دفعتاً شہریار کو وہاں دیکھ سُکینہ کی دھرکن تھم گئی ۔۔ اُسے یوں محسوس کہ جیسے اُس کی زندگی اُس ایک لمحے میں آج مکمل ختم ہوگئی ہو ۔۔
" تم ۔۔۔" اِس سے پہلے کے سُکینہ کی جانب بڑھتا شبیر علی ہاشمی آگے بڑھے اور بنا کسی رعایت کے اُس کے ہاتھ میں وہ کاغذات رکھ دیے۔
" یہ کیا ہے دادا ابو ۔۔؟ " شہریار اُس خاکی رنگ لفافے کو دیکھ ٹھٹھکا تھا جو شبیر علی ہاشمی نے اتنے تاؤ سے اُس کے ہاتھ پہ رکھا تھا۔
" ہم اپنی زبان پوری کر چکے ہیں شیرو ۔۔اب تمہاری باری! یہ طلاق کے کاغذات ہیں جس پہ ہم اِس لڑکی سے دستخط لے چکے ہیں۔ اب تم بھی اِس طوق کو اپنے گلے سے اتار پھینکو جو تمہارے گلے میں زبردستی پہنائی گئی تھی ۔۔"
وہ ایک بار پھر کٹھور پن کی انتہاؤں پہ تھے مگر شہریار کی بے یقین نگاہیں تو اپنے مقابل پل پل آنسو گراتے کھڑے وجود پہ جم گئیں تھی ۔۔
شبیر علی ہاشمی کا وہ انکشاف شہریار حسن کی رگوں میں دوڑتا خون منجمد کر گیا تھا ۔۔ اُس کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن تھا کہ سُکینہ اُن پیپرز پہ سائن کر چکی تھی ۔۔
شہریار نے سکتے و بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبے اُس لفافے سے وہ طلاق نامہ نکالا جبکہ اُس پہ سُکینہ کے سائن دیکھ شہریار کے ذہن میں گرم لاوا سا پکنے لگا۔ چہرہ اُس کی تپش سے تمتما اٹھا اور سینے میں وہ ٹیس محسوس ہوئی جیسے کسی نے اُس کے دل کو تیز دھار آلے سے بے دردی سے پھاڑ ڈالا ہو ۔۔
وہ بے یقینی کی آگ میں سراپا جل اُٹھا تھا ۔۔۔
شکوہ کناں نظریں ایک بار پھر اُس ظالم لڑکی تک گئیں تھی جو کل تلک اُس سے خود کو نہ چھوڑنے کا وعدہ مانگ رہی تھی اور آج وہ خود اتنی آسانی سے اُن کاغذات پہ دستخط کر گزری تھی ۔۔
مگر شہریار نہیں جانتا تھا کہ سُکینہ نے کس دل سے وہ کاغذات سائن کئے تھے ۔۔ کس حوصلے سے وہ اپنی زندگی کا واحد چراغ بھی اُس ستم گر آندھی کی نظر کر دیا تھا ۔۔
کس کرب و تکلیف سے اُس نے یہ زہر کا کڑوا گھونٹ اپنے حلق سے اتارا تھا ۔۔
شہریار کے ہاتھ سے وہ کاغذات چھوٹ گرے تھے اور وہ بس آس پاس سے بیگانہ اُس سنگدل لڑکی کو دیکھ رہا تھا جسے اُس کے جذبات سے زیادہ دوسروں کی پرواہ تھی ۔۔۔
مجھے یہ بتا ، تجھے کیا ملا ؟
کوئی دے وجہ ، تجھے کیا ملا ؟
مجھے دارِ عشق پہ کھینچ کر ،
دلِ مبتلا ، تجھے کیا ملا ؟
مجھے چھوڑ کر سرِ راہ یوں،
اے مسافرا ، تجھے کیا ملا ؟
ترا ہجر ہم کو نگل گیا ،
نہیں کچھ بچا ، تجھے کیا ملا ؟
مجھے کر کے خود سے یوں اجنبی ،
مرے آشنا ، تجھے کیا ملا ؟
یہ الم ، یہ درد ، یہ وحشتیں ،
مجھے سب ملا ، تجھے کیا ملا ؟
تُو کہ جس کو ہم نے ہے دل دیا ،
تُو بھی کہہ رہا ، تجھے کیا ملا ؟
مجھے بس خدا کے جہان سے ،
تُو نہیں ملا ، تجھے کیا ملا ؟
وہ ٹوٹا ہوا دل لیے قدم قدم اُس کی طرف بڑھ رہا تھا جبکہ سُکینہ آہیں بھرتے نفی میں سر ہلاتے پیچھے ہٹ رہی تھی ۔۔
اِدھر شہریار کو مخبوط الحواس کی کیفیت میں وہ کاغذات پیروں تلے روندھتے دیکھ شبیر علی ہاشمی جلال میں آئے اور اُن کاغذات کو اُٹھائے کاٹ دار انداز میں غرائے ۔۔
" شیرو ۔۔کاغذات پہ دستخط کرو اور فارغ کرو اِس لالچی لڑکی کو جس نے تمہارے ساتھ پہ اِس بلینک چیک کو ترجیح دی ۔ یہ لڑکی تمہارے لائق ہی نہیں ہے۔ "
شہریار کے ارتکاز میں رتی برابر بھی فرق نہ آیا اور وہ آگے بڑھتے بڑھتے سُکینہ کو مکمل طور پہ کتابوں سے بھرے ریک سے لگنے پہ مجبور کر گیا تھا ۔۔
سُکینہ کی بھیگی پلکیں اب جھکی ہوئی لرز رہی تھیں ۔۔
وہ قریب تھا ۔۔ بہت قریب ۔۔ شاید یہ قربت بھی آخری بار کی تھی ۔۔ وہ اُسے جی بھر کے دیکھنا چاہتی تھی ۔۔ چھونا چاہتی تھی ۔۔محسوس کرنا چاہتی تھی ۔۔ مگر اُس میں تو شہریار سے نظریں ملانے کی تک ہمت مفقود تھی۔
اُس کا معصوم دل پھٹنے کے نزدیک تھا ۔۔
اور اب در حقیقت تکلیف برداشت سے باہر ہوتی جارہی تھی ۔۔
" مجھ سے آزادی چاہتی ہو؟ " اُس کے لب ہلے ۔۔ لہجہ بے یقین و بے بس تھا۔ بھوری آنکھوں میں پانی تھا۔ اور صورت پُر امید تھی ۔۔ جیسے وہ ہر صورت اُس سے 'نہ' سننے کا متمنی تھا۔
پر یہ کیسا مشکل سوال تھا جس کا سُکینہ کے پاس جواب ہوتے ہوئے بھی کوئی جواب نہ تھا ۔۔
وہ اُس کے سایہ میں چھپی کھڑی ہولے ہولے سسک رہی تھی ۔۔
َ" میری آنکھوں میں دیکھو اور مجھے جواب دو ۔۔" شہریار نے اُسے ہنوز خاموشی سے آہیں بھرتے دیکھ دونوں بازو سختی سے جھنجھوڑتے پوچھا تو وہ اُس کی گرفت پہ تڑپ کر آنکھیں میچ گئی جن سے بھل بھل آنسو گر رہے تھے ۔۔
" ٹھیک ہے پھر ۔۔ میں تمہیں آزادی دینے تیار ہوں سُکینہ شہریار حسن ۔۔۔ " الفاظ تھے یا خاردار کوڑے ۔۔ سُکینہ کی پھٹی پھٹی بے بس آنکھیں اُٹھی تھیں اور وہ بولنے کی کوشش میں پھڑپھڑاتے لب لیے نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔
نہیں تھا اُس میں اتنا حوصلہ کہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی محبت سے دستبردار ہو جاتی ۔
اُس محبت سے جس نے دور رہ کر بھی اُسے اپنا دیوانہ بنا ڈالا تھا ۔۔
شہریار نے اُس کی آنکھوں کی التجا کو بالائے طاق رکھتے اُسے ایک جھٹکے سے آزاد کیا اور اگلے لمحے کسی کو بنا کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دیے اسٹڈی ٹیبل کی دراز میں مخفی گن نکالتے لوڈ کئے اپنی کنپٹی پہ رکھ دی ۔۔۔
" شیرو ۔۔" اُسے خطرناک ارادے دیکھ سُکینہ اور شبیر علی ہاشمی دونوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑے تھے اور روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جانے کے در پہ آ پہنچی تھی ۔۔
" شیرو نہیں ۔۔ چھوڑیں اِسے ۔۔" وہ فوراً دوڑ کے قریب آتی اُس کے ہاتھ سے گن لینے کی کوشش کرنے لگی۔
" آپ چاہتے تھے نا میں سُکینہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں؟
" شش۔۔شیرو ۔۔ نہیں پلیز شیرو۔۔" اُس کی سنجیدہ بھوری آنکھیں دیکھ سُکینہ کا دل حلق میں آچکا تھا۔
" یہ کیا پاگل پن ہے شیرو ۔۔ رکھو اِسے۔" اپنے لاڈلے کے سر پہ پستول دیکھ شبیر علی ہاشمی بھی لرز ہی اٹھے تھے مگر اُن تو اتنی سکت بھی نہ تھی کہ اپنے جنونی پوتے کو روک پاتے۔
" پاگل پن نہیں ہے دادا ابو ۔۔ جس وقت آپ کو زبان دی تھی تب ہی فیصلہ کر چکا تھا ۔۔ اب سُکینہ سے مجھے صرف میری موت ہی الگ کر سکتی یے ۔۔ماسوائے اِس کے میں اِسے اپنی زندگی سے کبھی نہیں نکال سکتا ۔۔ " تیز تنفس لیے وہ اب سُکینہ کو ہی دیکھ رہا تھا جو پاگلوں کی طرح روتی اُسے روکنے کی کوشش میں نڈھال ہورہی تھی۔
" شیرو نہیں ۔۔ نہیں پلیز شیرو ۔۔ یہ مت کریں ۔۔ مم۔ پلیز ۔۔ آپ کو خدا کا واسطہ ہے۔ پلیز لیو دِس شیرو ۔۔"
" شیرو ہم کہہ رہے رہے ہیں رکھو اِسے ۔۔ یہ لڑکی تمہیں اِس قدر پاگل کر چکی ہے کہ تم اپنے حواس کھو چکے ہو، ۔ پستول واپس رکھو شیرو ۔۔ یہ ہمارا حکم ہے۔" شبیر علی ہاشمی اُسے بضد دیکھ غصے سے بولے۔
" میں آپ ہی کہ حکم پہ تو عمل کر رہا ہوں دادا ابو ۔۔ میں نے زبان دی تھی اِسے چھوڑنے کی تو اب میں اِسے وہ آزادی دے رہا ہوں ۔۔" اُس کے الفاظ سُکینہ کے دل پہ نشتر بن کر چل رہے تھے مگر جان تو صرف اُس کی جنونیت پہ اٹکی تھی ۔۔ وہ ٹریگر پہ اپنا دباؤ بڑھا رہا تھا ۔۔
" شہریار نہیں!!! پلیز میں مر جاؤں گی ۔۔ مجھے اتنی بڑی سزا مت دیں ۔۔ میں آپ کے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز یہ گن مجھے دے دیجیے ۔۔۔ آپ کو لگ جائے گی ۔" وہ بے بسی کی انتہا پہ کھڑی اُس کا مزاحمت کرتا دایاں ہاتھ تھامے گڑگڑا رہی تھی جب شہریار کی نظر اُس دائیں گال پہ جا ٹھہری جہاں انگلیوں کے کچھ سٗرخ نشان سبت تھے جو اب ہلکے ہلکے نیلے پڑ رہے تھے ۔۔
یکلخت اُس کے اعصاب تن گئے ۔۔ وجیہہ چہرے پہ چٹانوں سی سختی در آئی ۔۔شہریار نے سخت عتاب و بے یقینی سے سُکینہ کے پیچھے کھڑے اُس بے حس انسان کو دیکھا جس نے سُکینہ کے گال پہ نہیں بلکہ شہریار حسن کے قلب پہ طمانچہ دے مارا تھا ۔۔
" آپ کی ہمت بھی کیسے ہوئی سُکینہ پہ ہاتھ اٹھانے کی؟" اُس کی آواز کی گرج نے شبیر علی ہاشمی سمیت پورے ہاشم ولا کو لرزا دیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اُس نے شبیر علی ہاشمی کے آگے اپنا ضبط کھویا تھا ۔۔ اُس کی رگیں اِس حد تک تنی ہوئی تھیں کہ سفید رنگت سُرخی مائل ہو چکی تھی ۔۔
" شیرو ۔۔ "
" شہریارر ۔۔ " دفعتا اُسے اتنے غصے میں اپنے سر پہ پستول تانے دیکھ تمام گھر والوں کی مشترکہ چیخیں بلند ہوئی تھیں ۔۔
" شش۔۔شیرو یہ کک۔۔کیا ۔۔چھوڑو اِسے ۔۔" شہیر کے تو حواس ہی شل ہوچکے تھے۔
" نہیں بھیا ڈونٹ میرے قریب مت آنا ۔۔آئی ول شوٹ مائی سیلف ۔۔" شہیر کو قریب آتے دیکھ وہ تنبیہ لیے غرایا تو کہکشاں بیگم سمیت سب گھر والوں کا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔
" شیرو یہ کیا کر رہا ہے ۔۔ چھوڑ اُسے ۔۔" وہ سالار تھا جو اُس کی آنکھوں میں چھلکتا جنون دیکھ، اُس کی دھمکی کی پرواہ کیے بغیر اُس کے قریب آکر گن چھینے کی کوشش کرتے چلایا۔
" بیک آف سالار ۔۔۔ اب اگر تو میرے قریب آیا تو بائی گاڈ آئی ول شوٹ مائی سیلف ۔۔!!" اُس نے پوری طاقت سے سالار کو پیچھے دھکیلتے خطرناک سنجیدگی سے کہا تو سب گھر والوں کے اوسان خطا ہوگئے ۔۔
" حسن۔۔ حسن شیرو کو روکیں ۔۔" کہکشاں بیگم پھولے ہاتھ پیر لیے بلند آواز میں چییخنے لگیں تو پریشان حال سارین اور حواس باختہ فضہ نے اُنہیں سہارا دیا۔
" شیرو میری جان ۔۔ میرے بیٹے اپنے ہوش میں آؤ اور اِسے رکھ دو ۔۔ تمہیں لگ جائے گی ۔۔" سمانہ نے روندھی آواز میں اُسے سمجھانا چاہا پر وہ تو کسی کی سننے کے موڈ میں ہی نہیں تھا ۔۔
" شہریار یہ کیا بچنا ہے بیٹا ہوش میں آؤ اپنے ۔۔ ہم آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔۔ تم جو چاہو گے ویسا ہی ہوگا اِس گن کو نیچے رکھ دو شہریار ۔" بیرسٹر حسن نے التجائیہ کہا۔
" نہیں بابا ۔۔ یہ چاہتے ہیں کہ میں سُکینہ سے الگ ہوجاؤں تو اب یہ علیحدگی میری موت کی صورت ہو کر ہی رہے گی ۔۔"
" نہیں شیرو ۔۔ نہیں!! اُسے ایک بار پھر ٹریگر پہ انگلی کا زور بڑھاتے دیکھ شبیر علی ہاشمی کا دل کانپ گیا تھا۔
" شیرو ۔۔ شیرو چھوڑیں اِسے ۔" یہ منظر دیکھ سُکینہ ایک بار پھر اُس کا ہاتھ تھام چکی تھی۔
" سُکینہ ہٹ جاؤ۔۔" وہ اُس کا ہاتھ پکڑتے بھینچے لہجے میں غرایا۔
" نہیں آا۔۔آپ۔۔اسے چھوڑیں ۔۔ مم۔۔ میں نہیں ہٹوں گی۔ آپ کو لگ جائے گی شہریاررر۔۔ " وہ ضدی پن سے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عاجزی سے بولی ۔۔
" سٗکینہ لیو می ۔۔"
" نو شیرو ۔۔ آپ کو لگ جائے گی پلیز پلیز اِسے چھوڑ دیں ۔۔ دیکھیں سب کتنا پریشان ہورہے ہیں پلیز میری بات سمجھیں ۔۔
دادا ابو نے جو کیا آپ کی محبت میں کیا، پلیز شیرو ۔۔ مم۔۔نہیں جاؤں گی کہیں ۔۔پلیز جسٹ لیوو دِس ۔۔"
" سُکینہ لیوو می ۔۔۔" اُسے مسلسل اپنے ہاتھ سے کھینچا تانی کرتے دیکھ شہریار نے غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ جھٹکا جس کے نتیجے میں سُکینہ کا اُس پہ انحصار کرتا وجود اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے لڑکھڑایا اور وہ بری طرح لکڑی کے میز سے جا ٹکرائی۔۔
" آہہ۔۔ " لمحوں میں اُس ماتھے سے گاڑھے خون کی لکیر بہہ نکلی تھی ۔۔
" سُکینہ ۔۔" اُس کے ماتھے پہ لگا زخم دیکھ شہریار سمیت سب کا دل ڈوب کے اُبھرا ۔ اُس کے ہاتھ سے گن چھوٹ کے زمین پہ گری تھی جسے بیرسٹر حسن بروقت اٹھاتے اپنے پاس رکھ چکے تھے ۔۔
شہریار اُس کا خون دیکھ فوراً گھنٹوں کے بل بیٹھتے اُسے پوری شدت سے خود میں بھینچ چکا تھا۔
" آئیم سوری ۔۔ آئیم سو سوری! آئی ڈنٹ انٹینڈ ٹو ہرٹ یو کینہ ۔۔۔" وہ ندامت کے سمندر میں غرق پاگلوں کی طرح اُسے خود میں بھینچے کہہ رہا تھا پر سُکینہ مسلسل رونے اور گہرے صدمے کی وجہ سے اب اُس کی مہربان بانہوں میں اپنے حواس کھو چکی تھی ۔۔
" سُکینہ۔۔سُکینہ ۔۔۔" کچھ ساعات میں شہریار نے اُسے کوئی جنبش نہ کرتے دیکھ شانوں سے پکڑے اپنے سینے سے الگ کیا تو اُسے بیہوش دیکھ اُس کے ہوش اُڑگئے۔
" سُکینہ ۔۔۔ سُکینہ آنکھیں کھولو ۔۔ سالار پانی دے۔" وہ اُس کے سرد پڑے گال تھتپاتے گھبراہٹ سے اُٹھانے لگا۔ سالار فوراً پانی کے لیے بھاگا تھا ۔۔ فضہ، کہکشاں بیگم، سارین سمانہ سب پریشان حال رو رہی تھیں ۔۔
دو راتوں میں اُن کے گھر کا مکمل سکون برباد ہوگیا تھا ۔۔
" سُکینہ پلیز ویک اَپ ۔۔"
" سُکینہ پلیز اُٹھو ۔۔" سارین کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔
" سُکینہ میری گڑیا ۔۔ آنکھیں کھولیں پلیز ۔۔ بھیا پریشان ہورہے ہیں ۔" سالار کے پانی لانے پہ شہریار کے بعد شہیر اُس کے مرجھائے سوزش زدہ معصوم چہرے پہ چھینٹے مارتے محبت سے پکارنے لگا ۔ کافی دیر بعد اُس کے وجود میں مبہم سی جنبش ہوئی۔
" بب۔۔بھیا ۔۔شیرو ۔۔نہیں ۔۔۔شیرو ۔۔۔" ٹھنڈے پانی کی چھینٹوں کا اثر تھا کہ اُس کا تاریک دماغ کچھ کچھ حواسات کی طرف لوٹنے لگا۔ اُس حالت میں بھی وہ آنکھیں بند کیے بس شہریار کا نام لیتی مضطرب تھی۔
" ہششش۔۔ چپ ۔۔بالکل چپ! یہ رہا میں تمہارے ساتھ ۔۔ تمہارے پاس ۔۔ اپنی آنکھیں کھولو ۔" شہریار نے اُس کے چہرے کی تری کو صاف کرتے کان میں سرگوشی نما کہا تو سُکینہ اپنی بوجھل آنکھیں کھولنے کی سعی کرنے لگی ۔۔
" شیرو ۔۔۔" آنکھوں کا کھلنا تھا کہ اُسے اپنے اوپر جھکے دیکھ وہ تڑپ کے رہ گئی ۔۔
" چلو اُٹھو ۔۔ہم اپنے گھر جارہے ہیں۔" وہ خود کو کمپوز کیے اُس کی متورم آنکھیں صاف کرتے سب کے سامنے اُسے اپنی بانہوں کے حصار میں سمیٹے کھڑا ہوگیا۔
سُکینہ کی بکھری حالت کے پیشِ نظر وہ سب بھی اُس کے ساتھ چلنے کو بیتاب تھے مگر شہریار کے سرد اعلان نے ہاشم ولا میں کھڑے ہر نفس کو منجمد کردیا تھا ۔۔
" آج کے بعد میرا یا میری بیوی کا اِس ہاشم ولا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔
آپ مجھے اپنے غرور کے لیے سُکینہ سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے شبیر علی ہاشمی ۔۔۔ آج میں شہریار حسن ہاشمی، سُکینہ کے لیے آپ کو چھوڑتا ہوں اور یہ عہد کرتا ہوں کہ اِس گھر میں کبھی دوبارہ قدم نہیں رکھوں گا اور نا ہی آپ کو اِس حرکت کے لیے کبھی معاف کروں گا۔ " بھینچے ہوئے لہجے میں خطرناک سنجیدگی لیے ایک ایک لفظ پہ زور ڈالتا وہ سُکینہ کو لیے ہاشم ولا سے نکلتا چلا گیا جبکہ شبیر علی ہاشمی تو بے جان پتھر بن چکے تھے۔
" شیرو ۔۔" سالار اُس کی فکر میں گھلتے پیچھے جانے لگا مگر شہیر نے اُس کا بازو تھامتے نفی میں سر ہلایا اور پھر سب کو اپنے اپنے کمروں میں جا کر آرام کرنے کا حکم دیا۔
" بابا چلیں ۔۔" جب سب جا چکے تو شہیر نے بیرسٹر حسن کو متوجہ کیا جو ہاتھوں میں وہ طلاق کے کاغذات پکڑے نم آنکھوں میں بے انتہا شکوہ لیے اپنے بے رحم باپ کو تک رہے تھے۔
" آپ اُس معصوم کے ساتھ بہت غلط کر رہے ہیں بابا۔ وہ آپ کا خون ۔۔۔۔"
" نہیں ہے وہ ہمارا خون اور نا ہی کبھی ہم اُس ناہنجار کو اپنا خون تسلیم کریں گے۔ لے گئی وہ بے حیا لڑکی بھی شہریار کو جس کی طرح اُس کی لاوارث ماں ۔۔۔۔"
" دادا ابو پلیز بس ۔۔۔ گھر میں پہلے ہی بہت براپلم ہیں۔ میں نے چاہتا کہ میرے منہ سے کچھ بھی غلط الفاظ نکلیں جو آپ کو تکلیف دیں۔۔ لیکن اب میں اپنی بہن یا چھوٹی مما کے خلاف ایک لفظ نہیں سنوں گا۔ " وہ شہیر تھا جس نے شاید زندگی میں پہلی بار اپنے گھر والوں کے آگے اونچی آواز میں بات کی تھی۔
شہریار تو شروع سے ہی اپنے غصے کی وجہ سے خاندان میں مشہور تھا لیکن شہیر ۔۔۔شہیر نے آج تک کبھی بڑے تو کیا گھر کے چھوٹوں سے تک اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی پر آج وہی شہیر سُکینہ کے لیے اپنی مزاج کی ازلی نرماہٹ کو پسِ پشت ڈال چکا تھا۔ شبیر علی ہاشمی کے لیے سُکینہ کی وجہ سے اپنے دونوں پوتوں کا یہ رویہ ناقابلِ برداشت تھا ۔۔ شدید غصے و شکستہ دلی سے اُن کی آنکھیں لہو برسانے کے نزدیک تھیں ۔۔ وہ شہیر پہ ایک بے یقین نظر ڈالتے اسٹڈی روم سے ملحق اپنے کمرے میں چلے گئے اور شہیر نے اُن کے جاتے ہی اسٹڈی ٹیبل پہ رکھیں تمام چیزیں زمیں بوس کردیں ۔۔
" شہیر ۔۔ شہیر کام ڈاؤن! " بریسٹر حسن نے اُسے شدید کوفت میں دیکھ شانہ تھامتے اپنے سینے سے لگا لیا۔
" بابا ۔۔ دادا ابو نے اُس معصوم سے ڈیوارس پیپرز سائن کروا لیے۔۔ وہ کتنی ہرٹ ہوگی ۔۔" اُس کے نرم چہرے پہ درد اور آنکھوں میں سُکینہ کے لیے آنسو تھے۔
" ریلیکس میرے بیٹے ! ہمارا شیر ہے نا گڑیا کے ساتھ ۔۔۔ وہ اُسے سنبھال لے گا۔ روم میں جاو فضہ گڑیا بھی بہت پریشان ہیں، اُنہیں سمجھاؤ ۔۔ ہم سب سُکینہ کے پاس کل جائیں گے ۔" بیرسٹر حسن اُسے لجاجت و پیار سے ہمت سمجھا رہے تھے جو اتنا صابر اور سلجھا ہوا ہونے کے باوجود آج گھر میں لگے تماشے سے کمزور پڑ گیا تھا۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
سارین جب سے کمرے میں آئی تھی بیڈ پہ ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی بے آواز رونے کے شغل میں مصروف تھی۔ بلاشبہ گزشتہ دو دن اُس کی زندگی کے انتہائی خوفناک دن تھے۔ سُکینہ اور شہریار کے بارے میں سوچ سوچ کر اُس کا دل غمگین ہورہا تھا ۔۔ اُسے اسوقت سالار کے کاندھے کی ضرورت تھی مگر وہ ایک کمرے میں موجود ہونے کے باوجود بھی اُس سے دور تھا ۔۔ بہت دور ۔۔۔۔
دوسری طرف سالار بھی کاؤچ پہ خاموش بیٹھا خالی آنکھوں سے چھت گھور رہا تھا۔ اُس کا بھائی اُس کی خوشیوں کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے تیار تھا اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔۔
اگر آج شہریار کو کچھ ہوجاتا تو وہ کس طرح سے زندہ رہتا ۔۔ کس طرح خود سے نظریں ملا پاتا ۔۔ کس طرح سُکینہ کا سامنا کر پاتا ۔۔
شہریار میں تو اُس کی جان بستی تھی ۔۔
وہ کہنے کو اُس سے بڑا تھا لیکن درحقیقت شہریار نے ہمیشہ اُسے اپنے چھوٹے بھائی کی طرح ٹریٹ کیا تھا ۔۔
ہر بار، ہر مشکل کو اُس تک پہنچنے سے پہلے اپنے اوپر لے لیا کرتا تھا اور آج بھی تو اُس نے یہی سب کیا تھا ۔۔ وہ اُس کے لیے اپنی خوشیوں کا گلا گھوٹنے تیار تھا ۔۔ اپنی جان دینے تک تیار تھا ۔۔
سالار کا سوچ سوچ کر برا حال تھا ۔۔ تکلیف کے باعث اُس کی ضبط سے گلابی پڑتی آنکھوں کے کنارے تر ہوتے چلے جارہے تھے۔ اُسے بھی اسوقت سارین کے ساتھ ضرورت تھی لیکن اُن دونوں کے درمیان کھڑی بدگمانی کی دیوار اُنہیں ایک دوسرے کا سہارا بننے سے باز کیے ہوئے تھی۔ وہ انا جو شہریار نے اپنے اور سُکینہ کے درمیان سے اکھاڑ پھینکی تھی وہی انا کی سرد لہر اب اُن دونوں کے رشتے میں اپنی جگہ بناتی محسوس ہورہی تھی ۔۔
اُسے سارین کا رونا بہت اذیت میں مبتلا کر رہا تھا لیکن وہ خود پہ جبر کیے ویسی ہی بت بنا بیٹھا تھا۔ اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد اُس کی خود کی ہمت جواب دے چکی تھی ۔۔ شبیر علی ہاشمی کی اُس کے نکاح کے بدلے رکھی گئی شرط اُس کی روح گھائل کر رہی تھی ۔۔۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
" آؤ ۔۔" گاڑی رات دو بجے حسن ولا کے سنسان پورچ میں رکی جہاں موتیاں اور چنبیلی کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو فضا میں پھیلی روح کو طمانیت بخش رہی تھی۔ شہریار نے اگنیشن سے چابیاں نکالتے، سُکینہ کی سمت آکر اپنا ہاتھ پھیلایا جسے مضمحل سُکینہ، نقاہت سے تھامتے گاڑی سے اتری۔ مسلسل رونے اور اُس چوٹ کی وجہ سے اُس کا سر بہت زیادہ بھاری ہورہا تھا جس کے باعث وہ پورا راستہ غنودگی کی کیفیت میں ہی رہی اور اب بھی قدم زمین پہ ٹکاتے ہی اُسے چکر محسوس ہوئے تھے تبھی شہریار کا بازو سختی سے دبوچ گئی ۔۔
سیاہ گہری آنکھوں میں اداسی کے ڈیرے تھے ۔۔ چہرہ حد درجہ بجھا ہوا تھا ۔۔ لب ایسے جامد تھے جیسے سالوں سے اُنہیں جنبش نہ دی گئی ہو اور آنکھوں کی سوزش دیکھنے والے کا دل کرلا رہی تھی ۔۔
" سُکینہ! تم ٹھیک نہیں لگ رہیں ۔۔ رکو میں اٹھا رہا ہوں تمہیں ۔۔۔" وہ لمحے میں اُسے اپنے بازوؤں میں اُٹھا چکا تھا ۔۔ سُکینہ نے بھی اپنی کمزور حالت کے پیشِ نظر کوئی مزاحمت نہیں کی تھی ۔۔ وہ بس خاموش تھی۔۔شاید بولنے کے لیے کچھ تھا نہیں ۔۔۔
شہریار اُسے اُس کے کمرے کے بجائے سیدھا اوپر اپنے کمرے میں لے آیا تھا مگر سُکینہ نے اُس پہ بھی کوئی خاص ردعمل نہیں دیا اور چپ ہی رہی ۔۔
وہ اب اُسے نہایت نرمی سے اپنے بیڈ پہ بٹھا کر اُس کے سہارے کے لیے کشنز سیٹ کر رہا تھا ۔۔
اور سُکینہ کا بے تاثر ارتکاز اُس کے کمرے میں سامنے والی دیوار پر نصب تصویر پہ ٹکا تھا ۔۔
" میں تمہاری ڈریسنگ کردیتا ہوں ورنہ انفیکشن ہوجائے گا۔" شہریار آنکھوں میں ڈھیروں خفت و ندامت لیے اُس کا زخم صاف کرنے کی غرض سے اپنی وارڈراب میں فرسٹ ایڈ باکس ڈھونڈنے لگا۔
کچھ ثانیے بعد وہ اپنی تلاش میں کامیاب ہوا اور باکس لیے سُکینہ کے عین مقابل آ بیٹھا۔
" کیا ضرورت تھی میرے قریب آنے کی؟ جانتی ہو مجھے زیادہ غصے میں ہوش نہیں ہوتا۔" وہ نادم تھا۔ بہت زیادہ نادم۔
رہ رہ کر اُسے اپنے دھکے کے باعث سُکینہ کا وہ گرنا یاد آرہا تھا۔ سُکینہ اُس کی مضطرب آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
شہریار اب اُس کا حجاب کھول رہا تھا ۔۔تاکہ زخم ٹھیک طرح صاف کرسکے ۔۔ سُکینہ اب بھی چپ تھی ۔۔ بس خاموش بت بنی اُس کی اُن جان لیوا بھوری آنکھوں میں دیکھی چلی جارہی تھی ۔۔
حجاب کا ہالہ ڈھیلا ہوا تو شہریار روئی پہ پاؤڈین لگائے اُس کے قریب جھکتا ہلکے ہلکے کافی محتاطی سے زخم صاف کرنے لگا جس پہ اچھا خاصا خون جم چکا تھا۔
" تم صحیح کہتی تھیں میں بہت برا ہوں۔ میں نے تمہیں اتنا ہرٹ ۔۔۔۔"
" سسس۔۔۔" شہریار اُس کا زخم صاف کرتے ہوئے دل گرفتگی سے کہہ ہی رہا تھا جب یکدم سُکینہ کے سسکنے پہ وہ گھبرا کے ہاتھ روک گیا۔
" سوری، بہت درد ہورہا ہے؟"
اُس کی پریشان بھوری آنکھیں دیکھ سُکینہ نے نم آنکھیں لیے بہت معصومیت سے اثبات میں سر ہلایا۔
" میں ابھی ڈاکٹر کو بلاتا ہوں ۔۔ درد کم ۔۔۔" وہ اُٹھنے لگا ہی تھا کہ سُکینہ کی حرکت پہ ٹھٹھکا۔
" نہیں! یی۔۔یہ درد ۔۔ کک۔۔کم نہیں ہوگا شش۔۔ شیرو! بہت زیادہ ہے ۔۔
بب۔۔برداشت نہیں ہورہا ۔۔۔" وہ اُس کا ہاتھ اپنے دل پہ رکھتی جس تکلیف زدہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی تھی شہریار نے اُسے کتنے پل گُنگ سے دیکھنے کے بعد سختی سے خود میں بھینچ لیا جس پر وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اپنے دل کا غبار نکالنے لگی۔۔
اُس پل اپنے حصار میں سُکینہ کا بکھرنا دیکھ کے شہریار کا دل کیا پوری دنیا کو جلا کر خاکستر کر ڈالے ۔۔
وہ کتنی دیر یونہی اُس کے کاندھے پہ سر رکھے روتی رہی اور شہریار نے سختی سے جبڑے بھینچے اُسے رونے دیا تاکہ اُس کی اذیت کچھ کم ہوجائے ۔۔
وہ جانتا تھا شبیر علی ہاشمی کے بے رحمانہ جابرانہ عمل سے وہ کتنی زخمی تھی ۔۔۔
وہ ہرگز بھی اُس کی سیاہ چمکدار آنکھوں میں اپنے لیے لیے موجود بے پناہ محبت سے بے خبر نہ تھا۔
وہ اُس کا محرم تھا ۔۔ اُس کا واحد سہارا ۔۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ لڑکی اُسے علیحدہ ہونے کے بارے میں حقیقت میں تو کیا شاید خواب میں بھی تصور نہیں کرسکتی ۔۔
دور رہنے کے باوجود بھی اِس ایک مہینے میں وہ سُکینہ حبیب کی خاموش آنکھوں کو بہت اچھے سے پڑھنا سیکھ چکا تھا۔
" ششش۔۔بس اب چپ! پُر سکون ہوجاؤ۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔ رونا بند کرو ۔۔ اتنی آسانی سے اپنی اکلوتی چڑیل کا پیچھا تھوڑی چھوڑ سکتا ہوں۔" کچھ ثانیے گزرے تو شہریار اب اُس کے بالوں پہ تھوڑی ٹکائے لہجے کو ہموار بنانے کی ناممکن سی کوشش کرتے اُسے تشفی دینے لگا پر اُس دل کا کیا کرتا جس پہ اُس کی آنکھوں سے بہنے والا ایک ایک قطرہ اُسے پتھر جتنا وزنی محسوس ہورہا تھا ۔۔
" کیوں کیا ایسا ۔۔؟ مم۔۔میں کتنا ڈر گئی تھی ۔۔ اگر خدانخواستہ ۔۔ آا۔۔ آپ کو کچھ ہوجاتا تو مم۔۔ میں مر جاتی شہریار ۔۔۔
مر جاتی میں ۔۔۔
نہیں چھوڑ سکتی میں آپ کو ۔۔ کبھی نہیں!! دادا ابو اتنے سنگدل کیوں ہیں ۔۔
وہ مم۔۔مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اُنہیں میری سچائی پہ یقین کیوں نہیں ۔۔۔۔" وہ دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں سختی سے اُس کی ٹی شرٹ جکڑے شکوہ کناں تھی جب شہریار کے جملے نے اُس کی دھڑکنیں، آنسو، شکایات، سسکیاں سب ساکت کردیے تھے ۔۔
" آئی لو یو سُکینہ ۔۔۔" اُس کی سرگوشی بہت مدھم تھی لیکن سُکینہ کے کانوں میں اُس کی وہ مبہم سی سرگوشی کسی حَسین جلترنگ سے ساز کی طرح بجتی محسوس ہوئی تھی ۔۔
اُس پل اُس کا وہ میٹھا سا اعتراف اُس کے روح پہ لگے ہر زخم پہ مرحم کی طرح لگا تھا ۔۔
وہ تر چہرہ لیے اُپنی بھیگی پلکوں کا گھنیرا جھالر اُٹھائے آنکھوں میں بے یقینی کا جہان آباد کئے اُسے استعجاب سے دیکھنے لگی۔ اُن دونوں کے چہروں کے درمیان انچ بھر سے زیادہ کا فاصلہ نہ تھا۔ اُن سیاہ گہری آنکھوں کا ارتکاز پوری محویت سے بھوری آنکھوں پہ ٹکا تھا ۔۔ لیکن بھوری آنکھیں تو اُن جھیل جیسی گہری سیاہ آنکھوں میں کھو کر ہی رہ گئی تھیں ۔۔
واللہ اُس نے خود کو سُکینہ کی اُن بڑی بڑی بھیگی آنکھوں میں ڈوبتے محسوس کیا تھا۔ اُس کی آنکھیں واقعی بے انتہا خوبصورت تھیں اور رونے کے بعد سے تو اُن کا حُسن جان لیوا حد تک بڑھ چکا تھا۔
" ڈد۔۔ڈو یو لو می؟" اُس کی بے یقین سی مبہم سرگوشی شہریار کی سماعتوں سے ٹکرائی تو پل بھر کو اُس کی دھڑکن تھمی اور پھر شہریار نے نم آنکھیں لیے کسی معصوم مجرم کی طرح اپنے سر کو اقبالِ جرم میں جنبش دی تو سُکینہ آنسوؤں کے درمیان خود کو کسی خواب کے زیرِ اثر محسوس کرتی بنا کچھ کہے واپس اپنا سر اُس کے سینے پہ ٹکا گئی ۔۔۔ گو کہ وہ اپنی ساری زندگی اِس حَسین پل کی نظر کردینا چاہتی ہو ۔۔۔
"سُکینہ ۔۔۔" اُن کے درمیان کچھ لمحے یونہی معنیٰ خیز خاموشی کی نظر ہوئے تو شہریار نے اُسے بالکل چپ دیکھ دھیمے سے پکارا ۔۔
" شہریار۔۔" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبی محض یہی کہہ سکی۔
"ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا میں مر تو سکتا ہوں لیکن اپنی زندگی میں تمہیں کبھی چھوڑ نہیں سکتا۔ آئی رئیلی لو یو مورون۔۔ آئی لو یو سو مچ ۔۔"
شہریار کا یہ اعتراف سُکینہ کی دھڑکنیں ساکن کر چکا تھا ۔۔ سوگوار حُسن یکلخت بے انتہا خوشی سے بدلا تھا، اُس کے معصوم چہرے پہ آنسوؤں کے درمیان ہی سرشار سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی اور وہ مدہم آہیں بھرتی اُس کے گرد اپنا حصار تنگ کیے ایک بار پھر رونے لگی تھی ۔۔
البتہ شہریار آنکھیں موندے اُس کے گھنے سیاہ ریشمی بالوں میں نرمی و ملائمت سے انگلیاں چلاتے اُس سے زیادہ خود کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور شاید وہ کامیاب بھی ہورہا تھا۔ بلاشبہ وہ لڑکی اُس کے بےچین دل کا سکون تھی۔ اُس کی قربت میں بہت میٹھا طمانیت بخش سا سحر تھا جو شہریار کو ہمیشہ ہی پر سکون کردیا کرتا تھا۔ ہاں وہ اُس کی سُکینہ تھی ۔۔ شہریار کی سُکینہ ۔۔۔
" میں نہیں جانتی یہ خواب ہے یا حقیقت ۔۔۔ مگر میں اِن لمحوں کو کبھی ختم نہیں ہونے دینا چاہتی شیرو ۔۔
بب۔۔بہت سکون مل رہا ہے جیسے ہر زخم بھر گیا ہو ۔۔" وہ مزید شدت سے اُس کے گرد حصار تنگ کرتے دھیمی آواز میں بولی۔
ہاں آج اُس کا اپنے خدا پہ یقین اور بھی زیادہ بڑھ گیا تھا ۔۔
وہ بھلا کسی کو اُس کی آزمائش سے زیادہ کیسے آزما سکتا تھا ۔۔
" آئیم سوری فار ایوری تھنگ کینہ ۔۔۔آئیم سوری فار ایوری مومنٹ آئی ہرٹ یو ۔ آئی نو میں نے تمہیں ڈلیبریٹلی بہت ہرٹ کیا ہے بٹ پلیز مجھے معا۔۔۔۔۔۔۔"
" ششش! نہیں ۔۔۔" اِس سے قبل کہ شہریار کا جملہ مکمل ہوتا سُکینہ نے تڑپ کر اُس کے سینے سے سر اٹھاتے اُس کے منہ پہ ہتھیلی رکھتے نفی میں سر ہلایا تو شہریار نے نمناک محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اُس کا وہ ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے اُسے واپس خود سے لگا گیا۔
"تم نے خود پر ہاتھ اُٹھانے کی اجازت کیوں دی اُنہیں ۔۔؟ تمہارے گال پہ سبت اُن کی انگلیوں کے نشانات دیکھ جانتی ہو مجھے کتنی تکلیف ہورہی ہے۔ اگر وہ میرے دادا ابو نہیں ہوتے تو شاید آج اِس حرکت پہ میں اُن کی جان لے ۔۔۔۔۔ "
" شیرو نہیں ۔۔۔" اُس کی گھنیری سیاہ مڑی ہوئی پلکیں اوپر کو اُٹھیں تھیں اور وہ ایک مرتبہ پھر اُسے روک چکی تھی۔ شہریار کا ہاتھ اب اُس کے زخمی رخسار پہ نرماہٹ سے گردش کر رہا تھا جہاں اُسے بے دردی سے تھپڑ مارا گیا تھا۔
" اُنہوں نے جج۔۔جان بوجھ کر نہیں کیا شہریار ۔۔ وہ ۔۔۔وہ بہت زیادہ غصے مم۔۔میں تھے اور غیر ارادتاً اُن کا مم۔۔مجھ پہ ہاتھ ۔۔۔۔۔۔"
" اسٹاپ ڈیفینڈنگ ہِم سُکینہ ۔۔ وہ تمہارے ساتھ اتنا برا کر گئے اور تم اب بھی اُن کو سیف کر ۔۔۔۔۔" شہریار کو اُس پل بہت غصہ آیا تھا اور وہ سُکینہ سے دور ہوا تھا۔
" کیا ہو تم؟ کیوں ناراض نہیں ہوتیں تم؟ کیوں تمہیں ہر اُس انسان سے ہمدردی کا بھوت سوار رہتا ہے جو تمہیں اتنا ہرٹ کرتا ہے ۔۔ کیوں ناراض نہیں ہو تم مجھ سے؟ مجھ سے لڑو، چیخو، چلاؤ، اپنا بدلہ لو ۔۔ یہ سب کچھ میری وجہ سے ہورہا ہے ۔۔ میری وجہ سے آج اُنہوں نے تم پہ ہاتھ اُٹھایا نا ۔۔ تت۔۔تم مجھے مارو ۔۔ "
" شیرو ۔۔۔ شیرو یہ کیا کر رہے ہیں پلیز لیوو ۔۔" شہریار کو اپنا ہاتھ گرفت میں لیکر گال تک لیجاتے دیکھ سُکینہ اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے کھینچ کر بے بسی سے دیکھنے لگی۔ وہ کس طرح اُسے بتاتی کہ شبیر علی ہاشمی کی اتنی ناراضگی کی وجہ در حقیقت شہریار نہیں بلکہ اُس کا خود کا وجود تھا جسے وہ اپنا خون ماننے سے تک انکاری تھے ۔
" نہیں شہریار ۔۔۔ مم۔۔میں آپ سے کک۔۔کبھی ناراض نہیں ہوسکتی ۔۔ کبھی نہیں! آپ نے جو کچھ کیا وہ اپنی ناراضگی میں کیا تھا۔ مجھ سے ناراض ہونا آپ کا حق تھا ۔۔میں آپ کی زندگی میں زبردستی شامل کی گئی تھی شیرو ۔۔۔ آپ مجھے پسند نہیں کرتے تھے لیکن اُس کے باوجود بھی آپ نے ہر بار نامحسوس طریقے سے اپنا فرض نبھایا۔ میرا ساتھ دیا ۔۔ مجھ پہ بھروسہ کیا ۔۔ مم۔۔مجھے موقع دیا ۔۔ میری حفاظت کی ۔۔ مجھے میرے اصل کے ساتھ قبول کیا ۔
آئیم رئیلی سوری شیرو، میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔ مجھے اسوقت کچھ سمجھ نن۔۔نہیں آرہا تھا۔ جب آپ نے دادا ابو سے وہ کہا تو مجھے لگا میں جی نہیں پاؤں گی ۔۔ میں جانتی تھی آپ سالار کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اس لیے میں نے خود کو سنبھالا کیونکہ میں اپنی وجہ سے آپ کو تکلیف میں نن۔۔نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔۔
مم۔۔میرا یقین کریں شیرو میں نے صرف دادا ابو کی خوشی اور آا۔۔آپ کے سکون کے لیے وہ۔۔وہ پیپرز سائن کیے تھے ورنہ۔۔۔۔۔"
"میرا سکون صرف تم ہو سُکینہ شہریار ہاشمی ۔۔۔ صرف تم ۔"
وہ اپنے آنسو اندر اتارتی، ہچکیوں کے درمیاں مبہم آواز میں کرب و ندامت سے کہہ رہی تھی جب شہریار نے اپنے اور اُس کے درمیان قائم تمام دوریاں مٹاتے بھرپور استحقاق سے اُس کی پیشانی پر اپنی پیشانی ٹکادی تھی جس پہ سُکینہ کی سانسیں ٹھہر گئیں اور وہ شدت سے آنکھیں بند کرتی اُس کے حصار میں سمٹ کے رہ گئی۔
" آج کے بعد ایسی کوئی حماقت کرنے سے پہلے اتنا ضرور سوچ لینا کہ شہریار حسن ہاشمی اپنی مورون چڑیل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ مورون چڑیل شہریار حسن ہاشمی کے دل کا سکون اور جینے کی وجہ بن چکی ہے جس کے بغیر گزارا ناممکن ہے۔۔ سمجھیں!! " شہریار نے اُس کی تھوڑی کو دو انگلیوں کی مدد سے اوپر کئے اُس کے آنسو صاف کرتے مصنوعی گھوری سے نوازتے ناک دبائی تو سُکینہ روتے روتے ہی مسکرا دی۔
" تھینک یو شیرو ۔۔ تھینک یو سو مچ ۔"
" ہئے ویٹ ۔۔ کیا کہا یو لوو می سو مچ رائٹ؟ زرا زور سے کہو ۔۔ مجھے نجانے تھینک یو کیوں سنائی دے رہا ہے۔" شہریار کو اپنے ازلی تنگ کرنے والے موڈ میں دیکھ خفت سے سرخ ہوتی سُکینہ نے اُسے آنکھیں دکھانی چاہیں مگر اُس آنکھوں میں محبت کے جلتے دیپ دیکھ خود ہی حیا سے پلکیں جھکا گئی اور شہریار اُس کے یوں حیا سے سمٹ جانے پہ مسکرا کر اُسے واپس اپنے حصار میں قید کر گیا۔
" یو نو واٹ اس طرح شرماتے ہوئے تو تم پوری اسٹیڈیم روڈ والی برائیڈل چڑیل لگ رہی ہو ۔۔بس برائیڈل ڈریس کی کمی ہے۔ کیا خیال ہے لے آؤں وہ بھی ۔۔۔؟ "
" شہریاررر!!! " اُس کی رازدرانہ سرگوشی پہ سُکینہ نے چڑ کر اُس کے حصار میں ہی ایک ہلکا سا پنچ اُس کے سینے پہ مارا تو شہریار اب کُھل کر ہنسنے لگا اور اُسے ساتھ لیے ہی بیڈ پہ لیٹ گیا جس پہ سُکینہ کا چہرہ کھلتے گلاب کی طرح دمکنے لگا۔
وہ دونوں نجانے کتنی دیر نم آنکھوں سے ایک دوسرے کو یونہی دیکھتے رہے۔
" درد ہورہا ہے؟" شہریار نے اُس کے ماتھے پہ لگی چوٹ کو انگشت شہادت سے چھوا ۔۔
" تھوڑا سا ۔۔"
" آئیم سوری!"
" کتنی بار کریں گے؟"
" جب تک اِس چوٹ کا نشان تمہارے فورہیڈ پہ نظر آتا رہے گا۔ "
" اور اگر نشان زندگی بھر نہ گیا تو ۔۔؟" سُکینہ نے شرارت سے بھنویں اچکائیں۔
" تو پھر تم وہ لَکی چڑیل ہوگی جس سے ایک ہینڈسم شہزادہ ساری زندگی سوری کرتا رہے گا۔ ایسے ۔۔۔ " شہریار نے اچانک ہی آگے بڑھ کر اُس کی چوٹ پہ پیار کیا تھا جس پہ سُکینہ دنگ رہ گئی تھی اور شہریار اب سُکینہ کے ششدر تاثرات سے محظوظ ہوتے مسکرا رہا تھا۔
" آا۔۔آپ کو پتا ہے آا۔۔آپ کتنے ۔۔۔۔" ابھی وہ حیا سے لال ہوتی اپنی ابتر سانسیں بحال کئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑتے خفگی سے کہہ رہی تھی جب شہریار نے اُسے اُٹھتے دیکھ واپس اپنے برابر لٹایا اور مزے سے کہنے لگا ۔۔
" جی جی مجھے پتا ہے میں بہت برا ہوں سُکینہ حبیب! آپ کو ساتویں بار یہ زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب آپ شرافت سے سو جائیے اِس سے پہلے کے میں مزید برا لگنے لگوں ۔۔" شہریار کے بھرپور معصومیت سے بے ساختہ کہنے پہ سُکینہ خود بھی باوجود ضبط کے مسکرا دی تھی۔
" بے شرم برگر نہ ہو تو ۔۔۔۔"
" شرمیلی چڑیل نہ ہو تو ہنہہ ۔۔" شہریار نے بھی دوبدو اُسی انداز میں کہا اور پھر وہ دونوں مشترکہ ہنس پڑے تھے۔
کتنا خوبصورت منظر تھا وہ ۔۔۔ کتنے پیارے لگ رہے تھے وہ دونوں ایک ساتھ ہنستے ہوئے ۔۔
سُکینہ کی پلکوں پہ ٹھہرے موتی شہریار نے نفی میں سر ہلاتے اپنی انگلی کے پوروں سے چن لیے تھے۔
افق کی سیاہ چادر میں بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا چاند اُن کی لازوال اور بے مثال محبت پہ رشک کناں تھا۔ اُن دونوں کی یہ دلفریب مسکراہٹ آج چاند کی چاندنی کو مات دے رہی تھی ۔۔
"آئی لو یو ۔۔" گلنار چہرے لیے وہ ایک بار پھر ایک دوسرے کو محویت سے دیکھنے لگے تھے۔ شہریار کی آنکھوں میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر پُر اعتماد سی سُکینہ کو جزبز کر رہا تھا جس کے باعث اُس کے عارضوں میں واضح حیا کی سُرخی ابھر آئی تھی۔
" تھینک یو ۔۔" اُس نے دھیمے سے کہا اور اپنی شرارتی نظریں جھکا لیں۔
"واٹ؟ اس کے جواب میں تھینک یو کون بولتا ہے مورون؟" شہریار کا دماغ بھک سے اُڑا تھا اور سُکینہ نے بڑی مشکل سے امڈ آتے قہقہے کا گلا گھوٹا۔
" وہی جس کو آپ پیار سے مورون کہتے ہیں ۔۔اب ایک مورون سے اور کیا ایکسپکٹ کیا جا سکتا ہے۔" اُس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے تو شہریار اُسے متاسفانہ گھور کر رہ گیا۔
" تم نہیں سدھرو گی؟ "
شہریار کے سوال پہ سُکینہ نے جواباً جب 'جانتے ہیں تو پوچھ کیوں رہے ہیں' والی نظروں سے دیکھتے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے کہا ۔۔
" آپ سدھر گئے کافی ہے۔ میں تو بچپن سے سدھری ہوئی معصوم اور شریف سی مخلوق ہوں ۔۔ تبھی تو ایک ہینڈسم شہزادہ اپنے اطراف موجود سینکڑوں پریوں کو چھوڑ کر مجھ اکلوتی معصوم چڑیل پہ اپنا دل ہار بیٹھا ہے۔" اُس کے جواب پہ شہریار اَش اَش کر اُٹھا تھا۔ ناچاہتے ہوئے بھی ایک دلفریب سی مسکراہٹ اُس کے تراشیدہ لبوں کے کناروں پہ جلوہ گر ہوئی تھی ۔۔
وہ واقعی شہریار حسن کو لاجواب کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اُس کا یہ مٹھاس بھرا اعتماد، یہ انفرادیت، یہ وقار یہ انداز ہی تو شہریار جیسے ضدی انسان کا دل تسخیر کرچکا تھا۔
" مائی کلیور مورون چڑیل۔" شہریار نے اُسے کلائی سے پکڑتے اپنے قریب کیا تو سُکینہ اُس کے بالکل بازو پہ آ لیٹی اور شہریار نے اُس کے گرد حصار بند کر کے فرار کی راہیں مسدود کردیں۔
" مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے شیرو۔" اُسے پھر اداسی کے بھنور نے گھیر لیا تھا۔
" جب میں ساتھ ہوں تو پھر کیسا ڈر؟" شہریار نے اُس کے چہرے سے چپکی لٹوں کو پیچھے کرتے استہفامیہ کہا مگر سُکینہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور بس اپنا حلق تر کیے اُسے دیکھتی رہی۔
" کیا تمہارے بارے میں کچھ ایسا ہے سُکینہ جو مجھے معلوم ہونا چاہیے؟" اُس کے غیر متوقع سوال پہ سُکینہ کی صورت یکلخت سفید پڑی تھی۔ دل پوری شدت سے دھڑکا تھا۔ ہاتھ پاؤں شل ہوگئے تھے اور آنکھوں میں اُسے کھو دینے کا خوف در آیا تھا۔
" شش۔۔شیرو ۔۔" اُس کی زبان میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی۔
" ہاں بولو میں سُن رہا ہوں کینہ ۔۔ تمہارے دل میں جو بھی خوف ہے مجھ سے شئیر کرو۔ میں جاننا چاہتا ہوں۔"
" وہ۔۔۔وہ ۔۔۔ مم۔۔میں ۔۔۔آا۔۔آپ ۔۔۔۔دادا ابو۔۔۔۔" اُس کی زبان اُس کا ساتھ دینے سے انکاری تھی۔ کمرے کے فل چلڈ ماحول میں بھی اُس کی پیشانی پسینہ سے تر ہوگئی تھی۔ وہ چاہ کر بھی اُسے سچ بتانے کی ہمت نہیں جٹا پارہی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو جمع ہوچکے تھے۔
" مم۔۔میں جج۔۔جھوٹی نہیں ہوں شیرو۔۔میں نے دھوکا نہیں دیا۔"
" سُکینہ ہئے ریلیکس ۔۔۔ اِٹس اوکے آئی نو! تم کبھی کسی کو دھوکا نہیں دے سکتیں ۔۔ڈونٹ کرائی۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں سب ٹھیک کردوں گا۔" شہریار اُسے اسقدر شکستہ دیکھ واپس اپنے حصار میں سمیٹتے اُس کے لمبے بالوں کو ملائمت سے سہلانے لگا تھا اور وہ اپنے آنسوؤں پہ ضبط کرنے آنکھیں شدت سے میچتی اپنا نچلا لب کچلنے لگی مگر سسکیاں تھمنے سے قاصر تھیں ۔
شبیر علی ہاشمی کی بے انتہا نفرت اور اُس کی ماں اور ماموں پہ لگائے گئے بے بنیاد الزامات اُسے کچوکے لگا رہے تھے۔۔
پرسوں ہیئرنگ تھی اور اُسے شہریار کو سب سچ بتانا تھا مگر کیسے ۔۔؟
بس یہی سوچ سوچ کر اُس کا دل دہل رہا تھا ۔۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
" دادا ابو نے ایسا کیوں کیا شہیر؟ وہ کتنی ہرٹ ہوگی۔ میں تو حیران ہوں کہ وہ سُکینہ کی سچائی جاننے کے باوجود بھی اُس معصوم کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ وہ اتنے سخت کیوں ہیں شہیر ۔۔۔ سُکینہ اُن کا اپنا خون ہے لیکن دادا ابو آج بھی اُسے اُن گناہوں کی سزا دے رہے ہیں جو اُس معصوم نے کبھی کئے ہی نہیں ۔۔ مجھے بہت برا لگ رہا ہے شہیر ۔۔ پلیز کچھ کیجیئے ۔۔ وہ ٹوٹ جائے گی۔ اُس کی زندگی میں اتنی اذیتیں کیوں ہیں؟ " منظر تھا ہاشم ولا کی بالائی منزل پہ واقع شہیر اور فضہ کے کمرے کا جہاں فضہ اداس دل اور بھیگی آنکھیں لیے شہیر کے سینے پہ سر ٹکائے محوِ گریہ تھی۔
" ریلیکس فضو ۔۔ رونا بند کریں۔ آپ کے آنسو مجھے کمزور کررہے ہیں ۔۔ وہ سُکینہ ہیں ۔۔ بہت مضبوط اور صابر ۔۔ جب تک شیرو اُن کے ساتھ ہے وہ نہیں ٹوٹ سکتیں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اللہ پہ یقین رکھیں ۔ میں نے گڑیا اور چاچو سے وعدہ کیا تھا کہ اُنہیں اُن کا حق دلا کر رہوں گا۔ میں اپنا وعدہ ضرور پورا کروں گا فضہ۔۔ جمعے کو ماموں کے کیس کی دوسری ہئیرنگ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کے ہر سچ سے تمام پردے اُٹھا دیے جائیں ۔۔
میں اپنی بہن کو اُن کا حق دلوا کر رہوں گا۔" شہیر نے دل گرفتگی سے فضہ کو سمجھاتے تسلی دی تو وہ اپنے آنسو پونچھ کر سر اثبات میں ہلانے لگی۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
رات قطرہ قطرہ کر کے پگھل چکی تھی۔ سحر کی ملگجی جامنی روشنی آہستہ آہستہ رات کی تارک چادر میں اپنی جگہ بناتی چلی جارہی تھی ۔۔ ٹھنڈی ہوا اونچے اونچے درختوں سے ٹکراتی سنسان فضا میں میٹھا سا ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔
شہریار نے بڑی مشکل سے اُسے نیند کی گولیاں دیکر کچھ دیر پہلے ہی سلایا تھا۔ وہ کھانا لایا تو تھا مگر سُکینہ شہریار کے باوجود اصرار محض دو نوالے ہی حلق سے اتار سکی تھی ۔۔
شہریار کو معلوم تھا کہ وہ بھلے خود کو بظاہر کتنا ہشاش بشاش ظاہر کر لے مگر اندر سے بہت گھائل اور سہمی ہوئی تھی ۔۔ آج جو کچھ ہوا تھا اُس کے لیے برداشت کرنا بہت کٹھن تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا سُکینہ یہ درد پچھلے اٹھارہ سالوں سے برداشت کر رہی تھی جو اب شاید اب معراج پہ پہنچ چکا تھا۔
اُسے چہرے پہ دنیا جہان کی معصومیت سمیٹے سوتے دیکھ شہریار نے بھرپور استحقاق و محبت سے جھک کر اُسی کی پیشانی چومی اور پھر کمفرٹر درست کرکے وہاں سے اٹھ گیا۔
اُس کی بھوری آنکھوں میں تھوڑی دیر پہلے چھلکنے والی نرمی اب کافور تھی۔ جبڑے بھینچ چکے تھے اور چہرے پہ چٹانوں سی سختی لیے اُس کا رخ باہر کی جانب تھا ۔۔
کچھ ہی لمحوں میں اُس کی سفید رنگ فورچونر حسن ولا سے باہر جا چکی تھی۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
" معظم کیا خبر ہے صلہ اور اُس لڑکی کے بارے میں؟ "
" سر سارا شہر کھنگالنے کے باوجود بھی اُن دونوں کا اب تک کچھ پتا نہیں لگ سکا ہے ۔ مجھے لگتا ہے اگر وہ زندہ بھی ہیں تو کراچی میں نہیں ہیں ۔۔
البتہ شہیر پچھلے دنوں جس بستی میں جارہا تھا معلوم ہوا ہے کہ وہ کسی شائستہ نامی خاتون کا گھر ہے لیکن اب وہاں کوئی بھی نہیں ہے کیونکہ شہیر نے اُسے پولیس کی سیکورٹی میں محفوظ کروادیا ہے۔" معظم نے سر جھکائے مہتاب کو مطلع کیا مگر شائستہ کے نام پہ مہتاب کی پیشانی پہ بل نمودار ہوئے تھے۔
" شائستہ ۔۔۔ یہ نام کچھ سُنا سُنا سا لگ رہا ہے۔"
" وہ عورت جہاں بھی ہے معظم اُسے لیکر آؤ۔۔ اور جس بھی انسپیکٹر کی تحویل میں ہے اُس کا تبادلہ کروادو ۔۔
یقیناً شہیر اُسے میرے خلاف استعمال کرنے کی چکر میں ہے لیکن میں یہ نوبت آنے ہی نہیں دوں گا۔" مہتاب نے آنکھوں میں بھڑکتے شعلے لیے تنفر سے کہا اور پھر حرام مشروب اپنے حلق سے اتارنے لگا جبکہ معظم اُس کی حکم کی تعمیل بجا لانے وہاں سے چلا گیا۔
" گڈ مارننگ ڈیڈ ۔۔" وہ فراز تھا جو بڑا پرجوش سا انداز لیے مہتاب کے مکروہ چہرے پہ بوسہ دیتے مقابل صوفے پہ آ بیٹھا۔
" کیا بات ہے آج تو میرا بیٹا بہت خوش نظر آرہا ہے۔" مہتاب نے وہ حرام شے بڑے تفاخر سے اپنے بیٹے کے آگے کی تو وہ مسکراتا گلاس تھام گیا۔
" آج میں ایک شیر کو کتا بنانے جارہا ہوں ڈیڈ ۔۔ وش می گڈ لَک۔" وہ کمینگی سے بولا تو مہتاب کے چہرے پہ زہریلی مسکراہٹ ابھری۔
" تم آج کتا بناؤ گے اور کل اُس شہیر کو میں کتا بناؤں گا۔"
"اور پھر ہمارے دشمنوں کا کام تمام ۔۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ مجھے اُس سُکینہ اور شہریار سے کتنی نفرت ہے۔ میرا بس چلے تو اُن دونوں کے اتنے ٹکڑے کروں کہ گھر والے گننے سے قاصر رہ جائیں ۔۔ " فراز نے چشمِ تصور میں شہریار اور سُکینہ کو سوچتے زہر خندہ لہجے میں پھنکارتے وہ سرخ مایا ایک گھونٹ میں اپنے اندر اتار لیا ۔۔
" سُکینہ ؟ یہ کون ہے فراز؟ " مہتاب کی تیوری چڑھی۔
" میری کلاس میٹ اور شہریار حسن ہاشمی کی محبت ۔۔۔ ایک مڈل لوئر کلاس اَگلی ڈکلن جسے اپنے آپ پر اور اپنی سو کالڈ عزت پر بہت گھمنڈ ہے لیکن میں اُس کا یہ غرور چکنا چور کر کے رہوں گا ڈیڈ ۔۔ وہ میرے قدموں میں گر کر اپنی عزت کی بھیک مانگے گی اور میں اُسے بتاؤں گا کہ مردانگی کسے کہتے ہیں ۔۔" فراز کی آنکھوں میں آج بھی وہ رات تازہ تھی جب سُکینہ نے تنہا ہونے کے باوجود اُسے بری طرح زدو کوب کیا تھا۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
سارین کی آنکھ کھلی تو اُس کی پہلی نظر صوفے پہ سوتے سالار پہ گئی۔ وہ سوتے ہوئے اور بھی زیادہ جاذب نظر آرہا تھا۔ سفید رنگت، مضبوط جسمانیت، ماتھے پہ گرتے بال، بیضوی آنکھیں، اونچی ناک، عنابی لب اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی بلاشبہ وہ شہریار سے کچھ کم حَسین نہیں تھا۔ سارین کتنے لمحے اُسے بے خودی کے عالم میں دیکھتی رہ گئی۔ اُسے پرسوں رات کا منظر یاد آنے لگا جب سالار نے ایک بار پھر اُس کی عزت داغدار ہونے سے محفوظ کی تھی ۔۔لیکن کل رات کا منظر یاد آنے پہ اُس کی آنکھیں پھر بھیگ گئیں اور وہ اپنی نظریں چراتے فریش ہونے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
وارڈراب سے کپڑے نکالنے کے بعد اُس کا رُخ باتھروم کی طرف تھا۔ رات کو تو وہ عجلت میں چنجنگ روم میں چینج کر کے نکل آئی تھی لیکن اب اتنا بڑا باتھروم دیکھ اُس کی آنکھوں میں تحیر و جھجھک سمٹ آئی تھی۔ اسٹینڈ پہ کپڑے ہینگ کرنے کے بعد سارین جگ اور بالٹی کی تلاش میں نظریں دوڑانے لگی جس کا اُس باتھ روم میں دور دور تک کوئی پتا نہ تھا۔ وہاں تو بس ایک کارنر میں بڑا سا باتھ ٹب اور اُس سے کچھ دور شاور اسٹینڈ دیوار میں نصب تھا۔
سارین نے اُن جدید چیزوں کو دیکھ گھبراہٹ سے اپنا تھوک نگلا اور خراماں خراماں چلتی اُس باتھ ٹب کے نزدیک آئی جس میں شفاف پانی بھرا ہوا تھا۔
" ہائے اللہ! اگر نہاتے نہاتے اِس ٹب میں ڈوب کے مرگئی تو کوئی بچانے بھی نہیں آئے گا۔ نہیں نہیں میں اِس میں نہیں نہا سکتی۔" وہ معصومیت سے بڑبڑاتے سر اٹھائے شاور اسٹینڈ کو تکنے لگی لیکن تعجب تو یہ تھا کہ وہاں اُس کو کھولنے یا بند کرنے کوئی وال میسر نہیں تھا۔ سارین اُس عجیب و غریب شاور کو آن کرنے پورے باتھ روم میں یہاں وہاں متلاشی نگاہیں لیے گھومنے لگی۔ اُس نے باتھ ٹب کے اطراف لگے تمام نل کھل بند کر کے چیک کئے مگر ساری کوششیں بے سود رہیں اُلٹا باتھ تب بھی خالی ہوگیا۔
" یااللہ یہ کیا مصیبت ہے؟ اتنے امیر ہیں ایک شاور کا نل نہیں لگوا سکتے۔ اب تک تو سالار بھی اٹھ چکے ہونگے ۔۔ اگر میں بنا شاور لیے باہر نکلی تو وہ کیا سوچیں گے۔" سارین ابھی روہانسی صورت لیے منہ ہی منہ میں خود کلامی کرتے بے دھیانی میں باتھ ٹب سے پیچھے ہٹتی عین شاور کے نیچے کھڑی ہوئی ہی تھی کہ دفعتاً پانی کی تیز بوچھار اُس پہ برسنے لگی اور ڈر کے مارے سارین صاحبہ کی خطرناک چیخیں نکل پڑیں اور وہ کسی طرح اُس شاور کے ٹھنڈے پانی کو روکنے ٹائلز پہ ہاتھ مارنے لگی۔۔
سارین کی ہولناک چیخیں سُن کر سالار جو ابھی نیند سے جاگا ہی تھا بعجلت باتھ روم کی طرف بھاگا۔ سالار نے باتھروم سے ملحق چنجنگ روم کا ڈور سلائیڈ کیا تو باتھروم کا کھلا دروازہ دیکھ فوراً اندر آیا جہاں سارین ٹھنڈے پانی کو بوچھار تلے اب تک کسی طرح اس شاور کو بند کرنے کی چکر میں بے حال ہورہی تھی۔ ٹھنڈ کے باعث اُس کے گال سرخ انار ہوچکے تھے اور وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔ اُس کے پورے کپڑے بھیگ چکے تھے اور سنہرے بل موٹی موٹی لٹوں کی صورت گردن سے چپک گئے تھے۔
"سارین ۔۔" سالار نے اُسے اِس حال میں دیکھا تو لمحے میں سارا معاملہ سمجھتے ہوئے اُسے بعجلت شاور کے نیچے سے کھینچا تو سارین اچانک افتاد پہ اُس کے شانے سے آ لگی۔ سارین کا نیچے سے ہٹنا تھا کہ شاور خودبخود بند ہوگیا جبکہ پانی سے تر بہ تر سارین آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے بوکھلا کر سالار کو دیکھنے لگی جو سر جھکائے اُسی کو دیکھ رہا تھا۔
" وہ۔۔وہ شش۔۔شاور ۔۔بند۔۔نن..نہیں ۔۔۔" وہ کپکپاتی آواز سے کہتی سر جھکائے روزوشور سے رونے لگی جس پہ سالار ٹھٹھک گیا تھا۔ آج پہلی بار سالار نے اُسے کھلے بالوں میں، بنا گلاسز کے بے حجاب دیکھا تھا۔ آج وہ ایک کلاسمیٹ یا دوست بطور نہیں بلکہ اُس کی بیوی کے روپ میں اُس کے کمرے میں موجود تھی ۔۔ بلاشبہ وہ اسوقت معصومیت سے روتے ہوئے سالار کے دل کے تمام تار ہلا ہلا چکی تھی اور سالار نے دل کی آواز پہ لبیک کہتے بے اختیار ہی اُسے خود میں سمیٹ لیا تھا جس پہ سارین مزید بلک بلک کر رونے لگی تھی۔
"ہششش ریلیکس! وہ سینسر پہ چلتا ہے سارین۔ جب تک تم اُس کے نیچے سے نہیں ہٹو گی شاور بند کیسے ہوگا؟" وہ کافی نرمی سے کہتے اُسے سمجھاتے تھپتھپا رہا تھا۔ سارین کے نازک چڑیا جیسے مزاج سے وہ بخوبی واقف تھا ۔
" یہ دیکھو، میرے ساتھ آؤ۔"
"نہیں پلیز سالار پانی بہت ٹھنڈا ہے۔" سالار اُسے واپس شاور کے نیچے لے جانے لگا تو سارین ڈر کر اُس کی ٹی شرٹ دبوچ لی۔
" تو پانی یہاں سے گرم کردیتے ہیں، ایسے ۔۔" سالار نے اُس کی معصومیت پہ قربان ہوتے زبردستی اُس کا ہاتھ پکڑتے باتھ ٹب کے برابر لگے ہینڈل کو دائیں جانب ہلکا سا سلائیڈ کیا اور شاور کے نیچے ہاتھ بڑھایا تو خود بخود نیم گرم پانی کی بوچھاڑ برسنا شروع ہوگئی جسے دیکھ سارین دنگ رہ گئی۔
سارین کا دایاں ہاتھ سالار کے ہاتھ میں موجود تھا اور سالار اب تک اُس کے پیچھے کھڑا تھا۔ سارین کو اپنی کم عقلی اور پہ ڈھیروں خفت نے آن گھیرا ۔ اُس کی پلکیں کم مائیگی کے احساس سے جھک چکی تھیں ۔۔
کب سوچا تھا اُس نے کہ قسمت اُسے کچے مکان سے نکال کر محل جیسے اتنے بڑے گھر لے آئے گی۔ کب تصور کیا تھا کہ ایک معمولی سے پنکچر لگانے والے شخص کی بیٹی اب شہر کے مشہور اور امیر ترین ہاشمی خاندان کی بہو بن جائے گی۔ اٗس نے تو بس سالار سے بے لوث محبت کی تھی ۔۔
"سارین ۔۔" سالار نے اُس کی اتری صورت دیکھتے اُس کا رخ اپنی جانب موڑا مگر سارین نے شرمندگی سے نظریں نہیں ملائیں ۔
" سارین لُک ایٹ می ۔۔" سالار کے دونوں ہاتھ ہنوز اُس کے شانوں کو تھامے ہوئے تھے۔ سارین نے اُس کے کہنے پہ بہت ضبط سے اپنی متورم آنکھیں اٹھائیں مگر زیادہ دیر برقرار نہ رکھ سکی اور واپس نظریں جھکا گئی۔
" آئیم سوری! میری غلطی ہے۔ مجھے تمہیں بتانا چاہیئے تھا۔ مجھے اندازہ نہیں ہوا میری آنکھ کب لگی۔
میں کوشش کروں گا کہ آگے تمہیں ایسی کوئی پرابلم نہ ہو ۔۔ اب تم آرام سے شاور لے لو۔ سوپ، شیمپو اینڈ کنڈشنر وہاں ہیں۔
میں باہر ویٹ کررہا ہوں۔ ڈائینگ پہ ساتھ چلیں گے پھر میں مام اور بھابھی سے کہہ کر تمہیں گھر وزٹ کروا دوں گا ہمم۔" وہ انتہائی نرمی و رسانیت سے اُسے کچھ بھی محسوس کروائے بنا سارا الزام اپنے سر لے کر باہر چلا گیا تھا جبکہ سارین ششدر سی واشروم کے بند دروازے کو تکنے لگی۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
" کیوں بلایا ہے مجھے؟ " اُس کی بے لچک آواز میں خون جما دینے والی سردگی تھی۔ بھوری آنکھیں بلا کی سنجیدہ تھیں اور چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔
منظر ہاشمی انڈسٹریز کے آفس کا تھا جہاں وہ کچھ دیر پہلے ہی زبردستی طلب کیا گیا تھا۔ اُس کا منیجر متین چہرے پہ ڈھیروں ندامت لیے سر جھکائے ایک کونے میں کھڑا تھا۔
" کیوں تلاش کر رہے ہو اُس بے حیا کو؟"
" بہتر ہوگا آپ اپنے الفاظ پہ نظرِ ثانی کرلیں کیونکہ جسے آپ بے حیا کہہ رہے ہیں وہ آپ ہی کے بیٹے کے نکاح میں تھیں ۔۔" شہریار کے جبڑے تن چکے تھے اور گردن کی نسیں ابھر آئی تھیں۔
" ہم جانتے تھے تم ایسے نہیں مانو گے اِس لیے ہم نے تمہیں یہاں بلایا کہ تمہیں ماضی کے حقائق سے مکمل آگاہ کرسکیں ۔۔ یہ رہی وہ فائل جس میں اُس بدکردار عورت اور اُس کے بھائی کے تمام کرتوت موجود ہیں۔" کرسی پہ بیٹھے شبیر علی ہاشمی نے سرخ چہرہ لیے ایک سیاہ رنگ فائل اُس کی جانب بڑھائی۔
" مجھے ان کاغذات کے ٹکڑوں پہ نہیں اپنے چاچو کی محبت پہ یقین ہے اور میں اُنہیں ڈھونڈ کر رہوں گا ۔۔ " وہ بھینچی آواز میں اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا وہ فائل زمیں بوس کر کے جانے لگا تھا لیکن شبیر علی ہاشمی کے جملے پہ اُس کے قدم ٹھہرے ۔۔
" ڈھونڈا اُنہیں جاتا ہے جو مخفی ہوں ۔۔ جو نظروں کے سامنے رہتے ہوئے بھی دھوکا دیں اُن کے ملنے پہ سوائے تکلیف کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ اپنی آنکھوں سے محبت کی پٹی اتار کر دیکھو تو تمہیں نظر آئے گا کہ اصل دھوکے باز کون ہے جس نے سالوں سے ہمارے خاندان کو اذیت میں دھکیل رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے بیٹے کی جان چلی گئی اور جس کی وجہ سے سمانہ اور سالار کی حق تلفی کی گئی۔۔ جنہوں نے جائیداد کے لالچ میں اپنے محسن کے قتل سے تک گریز نہ کیا۔۔" اُن کے لہجے کی کاٹ سے زیادہ شہریار کو اُن کے الفاظ نے ساکن کردیا تھا ۔۔ وہ سمجھنے سے قاصر نہ تھا کہ آخر اُن کا اشارہ کس سمت تھا۔
" اس کا مطلب آاپ۔۔۔آپ جانتے ہیں چھوٹی مما کہاں ہیں؟ " وہ بجلی کی تیزی سے پلٹا تھا۔
" ہم نہیں جانتے اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں لیکن تم ضرور جان جاؤ گے۔ جاؤ اُس جگہ پر جہاں کی معلومات تم پہلے ہی حاصل کرچکے ہو۔ ہم تمہیں یہ تلخ سچ بتا کر تکلیف نہیں دے سکتے شیرو کیونکہ ہم تم سے بہت محبت کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں جب تمہیں یہ سچ پتا چلے گا تو تم ٹوٹ جاؤ گے۔۔" شبیر علی ہاشمی اُسے سکتے کی زد میں چھوڑ کر آفس سے جا چکے تھے اور شہریار اُپنے ہاتھ پہ رکھی گئی اس فائل کو دیکھ رہا تھا جو وہ جانے سے پہلے رکھ گئے تھے۔
" آئیم رئیلی سوری سر! نجانے شبیر سر کو یہ سب نیوز کس نے دی اور وہ صبح صبح یہاں آگئے۔ نوکری کے ختم ہوجانے کے ڈر سے مجھے مجبوراً آپ کے بارے میں اُنہیں سب بتانا پڑا۔" متین نادم سا لہجہ لیے شہریار سے معذرت خواہ تھا مگر شہریار تو کہیں اور ہی کھویا ہوا تھا پر پھر اُس نے خود کو کمپوز کرکے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور وہ فائل لیے وہاں سے نکل گیا۔
" گاڈ دادا ابو نے ایسا کیوں کہا؟ اگر چھوٹی مما ہمارے سامنے ہیں تو پھر ہم سے کوئی کیوں انہیں نہیں جانتا؟" ڈرائیور کرتے ہوئے اُس کا ذہن مستقل اسی کشمکش میں الجھا ہوا تھا۔ اُس کا رخ دور دراز واقع ایک پرانی بستی کی جانب تھا جہاں سُکینہ اور صلہ نے کبھی مہتاب سے اپنی جان بچانے پناہ لی تھی لیکن تب ہی اُس کا فون بجنے لگا۔
شہریار نے عجلت میں ائیر پوڈ کان میں لگاتے کال پک کی تو فراز کی آواز سُن کر اُس کا فشارِ خون بڑھ گیا۔
" میرے پیارے دوست ہم سب یونیورسٹی میں تمہارے منتظر بیٹھے ہیں اور تم ہو کہ منہ چھپا کر بل میں دبکے بیٹھے ہو ۔۔
کہیں اپنے بھائی اور محبوبہ کے کالے کرتوت سے واقف تو نہیں ۔۔۔۔۔۔"
" جسٹ شَٹ یور بلڈی ماؤتھ اَپ فراز ۔۔آئی ول کل یو ۔۔۔" شہریار غیظ و غضب سے سرخ ہوتے ایسا دہاڑا تھا کہ فراز نے کال بند کردی تھی مگر اب اُس کا شہریار کے عتاب سے بچنا ناممکنات میں سے تھا۔
شہریار کی فورچونر یو ٹرن لیتی یونیورسٹی کی راہ پہ تھی۔ وہ اسوقت ہر چیز بھلا کر صرف اور صرف فراز کی گھٹیا بکواس پہ اُس کا منہ توڑنے کا قصد لیے ہوا کے دوش پہ اڑا رہا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اسوقت فراز کے پاس جانا اُس کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہونے والا تھا۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
" سُکینہ کی آنکھ کھلی تو اُسے اپنے سر میں درد کی شدید لہر محسوس ہوئی جس کے باعث وہ سر تھامے اٹھ بیٹھی۔ شہریار کی تلاش میں آس پاس نظریں دوڑائیں مگر وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اُس نے گھڑی میں وقت دیکھا تو دن کے بارہ بجنے کو آ پہنچے تھے۔
" یااللہ! میں اتنی دیر کیسے سوتی رہی ۔۔نماز تو قضا ہو ہی گئی اوپر سے شیرو بھی نجانے کہاں چلے گئے؟ لگتا ہے بڑی مما اور بابا بھی اب تک نہیں آئے ورنہ وہ مجھے لازمی دیکھنے آتے۔" وہ فکرمندی سے خود کلامی کرتی بیڈ سے نیچے اتری تو غیر ارادتاً ہی نظریں قد آدم شیشے پہ جا ٹھہریں جہاں اُس کا اپنا مرجھایا ہوا عکس نمودار تھا۔
مسلسل رونے کی وجہ سے اُس کی آنکھیں حد سے زیادہ سوجھ چکی تھیں اور چہرہ نقاہت زدہ سا لگ رہا تھا لیکن جونہی اُس کی نظریں اپنی پیشانی پہ نمایاں زخم تک گئیں یکایک باریک لبوں کو خوبصورت سی مسکان نے چھو لیا ۔۔ رات کا منظر اور شہریار کی جسارت یاد کرتے سُکینہ کی کانوں کی لو سُرخ پڑی تھی اور وہ خود کو سرزنش کرتی فوراً آئینے کے سامنے سے ہٹتی فریش ہونے چلی گئی لیکن تھوڑی دیر بعد باتھروم کا ڈور واپس کھلا کیونکہ وہ بھول چکی تھی کہ یہ اس کا نہیں بلکہ شہریار کا کمرہ تھا جہاں اُس کے کپڑے موجود نہیں تھے ۔۔
سُکینہ اپنا سر تھامے ہی دھیرے دھیرے چلتے نیچے اتری تو گھر سنسان پڑا تھا۔ اُس کا دل یکدم سکڑ گیا ۔ آج سارین اور سالار کی شادی کی پہلی صبح تھی ۔۔ یقیناً سب گھر والے اُن دونوں کے ساتھ ہی تھے لیکن اُس کی قسمت کے وہ اپنے سگے بھائی خوشیوں میں شامل ہونے سے قاصر تھی۔
"نجانے وہ سب کتنا پریشان ہوں گے۔"
سُکینہ نے پژمردگی سے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور وارڈراب کی طرف قدم بڑھاتے اپنے کپڑے نکالنے لگی جب چند تصویریں اور مظاہر علی ہاشمی کی ڈائری دونوں نیچے آ گری تھیں پر سُکینہ کا دھیان نہ گیا اور وہ اپنے کپڑے لیے شاور لینے چلی گئی۔
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
ادھر ہاشم ولا میں سالار اور سارین کا پہلا ناشتہ ہونے کی وجہ سے شہیر، فضہ، بیرسٹر حسن، کہکشاں بیگم اور سمانہ نے گھر کا ماحول خوشگوار بنانے کی ناکام سی کوشش کی تھی مگر کو کچھ رات کو ہو چکا تھا اندر ہی اندر وہ سب اُس حادثے سے بری طرح افسردہ تھے۔ اوپر سے شبیر علی ہاشمی کا صبح صبح گھر سے نکل جانا انہیں سارین کے آگے مزید شرمندہ کر گیا تھا۔
" سالار بیٹا یہ میری اور سلمان کی طرف سے تم دونوں کی شادی کا تحفہ ہے۔" وہ سب ناشتہ کرچکے تو بیرسٹر حسن نے ایک لفافہ سالار کے ہاتھ پہ رکھا جسے وہ ناسمجھی سے دیکھنے لگا جبکہ سارین بھی اُن کی جانب متوجہ ہوئی۔
" یہ کیا ہے بڑے بابا؟" سالار نے جونہی اُس لفافے کو چاک کیا تو امریکہ کی دو ٹکٹس دیکھ اُس کی سیاہ آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔
" یہ تمہاری اور سارین کی ٹکٹس ہیں سالار ۔۔ اور آج شام آپ دونوں کچھ دنوں کے لیے سلمان چاچو کے پاس امریکا جارہے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ گھر کے سنجیدہ ماحول کا اثر تم دونوں کی نئی زندگی پہ پڑے۔ " یہ دھماکہ کرنے والا شہیر تھا جبکہ اس انکشاف نے سالار اور سارین دونوں کو ہی ٹھیک ٹھاک پریشان کردیا تھا۔
"بھیا، بڑے بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ گھر میں آلریڈی اتنا ٹینسڈ ماحول ہے ۔۔ شیرو میرے لیے یہ گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے اور ایسے میں، میں اُن دونوں کو چھوڑ کر اپنی خوشیوں پہ فوکس کروں جو میرے لیے اپنی زندگی برباد کرنے تیار تھے سیریسلی؟" سالار یکدم ہی بھڑک گیا تھا۔ اُس کا اِس فیصلے پہ اتنا غصے میں آجانا بقیہ گھر والوں کے لیے تو متوقع تھا مگر سارین ٹھیک ٹھاک ڈر چکی تھی۔
" سالار! یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا؟ " سمانہ نے اُسے ڈپٹا مگر سالار کے رویے میں رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا تھا۔
" مام میں شیرو اور سُکینہ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جارہا اینڈ آئیم ڈیم شیور کے سارین بھی نہیں جانا چاہے گی۔" اُس نے ایک جتاتی نظر سارین پہ ڈالی جو سر جھکائے اپنا لب کاٹ رہی تھی۔
" سالار سمجھنے کی کوشش کرو بیٹا۔۔ ہم سب شیرو اور سُکینہ کے ساتھ ہیں اور شیرو بھی یہی چاہتا ہے۔ سلمان نے سب کے مشترکہ مشورے سے ہی یہ فیصلہ کیا ہے کہ کچھ دن تم دونوں اُس کے پاس رک جاؤ۔
مجھے یقین ہے شہریار بابا کو منا لے گا سالار ۔۔۔ اپنا نہیں تو سارین کا خیال کرو۔ وہ تمہارے نکاح میں ہیں ۔۔اُن کا حق ہے کہ وہ تمہارے ساتھ سکون سے رہیں۔ وہ یہاں اس لیے نہیں آئیں ہیں کہ ہم انہیں شادی کی پہلی رات گھر کے نجی مسائل سے دوچار کریں ۔۔" بیرسٹر حسن نے اُسے ملائمت سے سمجھانا چاہا۔
" نہیں بڑے بابا! یہ ناممکن ہے۔ میں نہیں جاسکتا اور سارین کوئی اجنبی نہیں ہے۔ وہ سُکینہ اور شیرو کے بارے میں سب جانتی ہے۔ وہ اُنہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گی ہے نا سارین؟ " اُس نے سارین سے تائید چاہی تھی جو بالکل خاموش تھی۔
" سارین میں تم سے پوچھ رہا ہوں ۔۔" سالار نے اُسے چپ دیکھ اپنی بات پہ زور دیا مگر سارین کے کانوں میں شہیر کی کچھ دیر پہلے کی جانے والی بے بس التجا گونج رہی تھی۔
" پلیز سارین اگر آپ سالار کو نہیں لے گئی تو سالار سُکینہ کا سچ برداشت نہیں کر پائے گا اور سُکینہ ایک وقت میں اپنے اتنے قیمتی رشتوں کی نفرت نہیں سہہ سکیں گی۔ میں جانتا ہوں جب تک میں جون ماموں کا کیس نہیں جیت جاتا سب دادا ابو کی طرح اُس جھوٹ کو ہی سچ سمجھ کر گڑیا اور چاچی سے نفرت کریں گے۔
سارین سُکینہ دادا ابو کی نفرت تو برداشت کر گئی لیکن سالار کی نفرت نہیں برداشت کر سکیں گی۔ پلیز گڑیا سالار کو لے جائیے۔"
" سارین چپ کیوں ہو بولو ۔۔" سالار اب زچ ہوا تھا۔
" مم۔۔مجھے بڑے بابا کے فیصلے پہ کک۔۔کوئی اعتراض نہیں ۔۔" سارین کی لڑکھڑاتی زبان کا ہلنا تھا کہ سالار جامد رہ گیا۔ اُسے اپنی سماعتوں پہ یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ سارین ایسا کہہ سکتی ہے۔
سالار اسوقت کس ضبط سے اپنا غصہ اندر اتارا تھا وہی جانتا تھا۔ اُسے سارین سے خواب میں بھی اِس خود غرضی کی امید نہیں تھی جو وہ آج سب کے سامنے حقیقت میں دکھا گئی تھی۔
" سالار ہم جو بھی کر رہے ہیں اِسی میں تم چاروں کی بھلائی ہے۔ اب ضد چھوڑو اور جاکے شام میں جانے کی تیاری کرو۔ میرا اچھا بیٹا ہمم۔ " سمانہ اُس کی سُرخ پڑتی رنگت دیکھ کر لجاجت سے سمجھانے لگی اور سالار ایک ترش نظر برابر بیٹھی سارین پہ ڈالتے ٹیبل سے اٹھ کر روم میں چلا گیا جس پہ سارین کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں لیکن شہیر نے اُسے مشکور نظروں سے دیکھتے تسلی بخشی تو وہ اثبات میں سر ہلاتی خود بھی سالار کے پیچھے روم میں گئی۔
اِس میں کوئی شک نہیں تھا کہ زینے چڑھتے ہوئے اُس معصوم کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ۔۔ وہ جانتی تھی سالار اُس سے ٹھیک ٹھاک قسم کا خفا ہوچکا تھا۔
" میں تمہاری تکلیف کم کرنے سالار کی ناراضگی برداشت کرلوں گی سُکینہ ۔۔ میری دعا ہے کہ شہریار اِس مشکل وقت میں تمہارا ساتھ نہ چھوڑے میری پیاری دوست ۔۔" سارین نے خود سے عہد باندھتے اپنے رخسار رگڑے اور کمرے کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ سالار نے اُسے اندر آتے دیکھ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا کانچ کا جگ پوری طاقت سے دیوار پہ دے مارا جس پہ سارین کا دل کانپ کے رہ گیا اور وہ دروازے میں ہی کھڑی پل پل آنسو گرانے لگی۔
اُسے روتے دیکھ سالار کا مزید دماغ گھوما تو اُس نے سارین کی جانب قدم بڑھائے جس پہ وہ بدک کر پیچھے ہونے لگی مگر اُس سے پہلے ہی سالار اُس کا بازو اپنی گرفت میں لیکر دروازہ زوردار آواز سے بند کرتے اُسے وہیں پن کر چکا تھا۔
" ہاؤ کین یو بی سو سیلفش سارین احمد؟؟ ہاؤ کین یو ۔۔۔" سالار کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سارین کی جان لے لے ۔۔ اِس وقت وہ بھائی کی محبت میں یہ یکسر بھول بیٹھا تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی اُس کی محبت تھی جسے وہ کل ہی رخصت کر کے لایا تھا۔ اُسے یاد تھا تو صرف یہ کہ سارین نے آج بہت خود غرضی دکھائی تھی ۔۔ اُس نے اُسے سب کے سامنے سالار کو شرمندہ کیا تھا۔ سُکینہ اور شیرو کی بے لوث قربانی کا احساس نہیں کیا تھا لیکن وہ کیا ادراک رکھتا تھا کہ وہ معصوم لڑکی تو اُسے اور سُکینہ کو ایک بہت بڑی اذیت سے بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔
" سس۔۔سالار مم۔۔مجھے درد ہورہا ہے پلیز۔۔" سارین نے بازو میں محسوس ہونے والی تکلیف پہ سسکتے ہوئے التجا کی تو سالار کو ہوش آیا اور وہ غصے سے انگارہ ہوتی نم آنکھیں لیے اُسے اُسی پل چھوڑتے اپنے آپ پہ قابو پانے اپنے بال مٹھی میں جکڑ کر رخ پھیر گیا۔
اب اُس کمرے میں سارین کی مدھم سسکیاں گونج رہی تھی ۔۔
" میری غلطی ہے جو تمہیں سُکینہ کی طرح سمجھا جو اپنی دوست اور منہ بولے بھائی کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے تیار ہوگئی تھی۔۔ پر تم نے مجھے اِس خوش فہمی سے آزاد کردیا سارین احمد ۔۔ تھینکس ٹو یو ۔۔" سالار نے تلخی کی انتہا کرتے ایک طنزیہ نظر اُس کے اداس حسن پہ ڈالی اور پھر اُسے دروازے سے ہٹاتے باہر چلا گیا اور سارین زمین پہ بیٹھتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
جاری ہے!
🅰🆈🅽🅽 🅵🅰🆃🅸🅼🅰
🅾🅵🅵🅸🅲🅸🅰🅻
کیسی لگی قسط اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے ❤
7 Comments
Nice , Awesome, Outstanding, lovely, gorgeous, bohat bohat acha ❤️🔥😍😍❤️✨❤️✌️
Hopefully u r f9....
Episode is fantastic amzng fabulous jxt mndblwng
Nw desperately w8 4 d end mnx nw shero cm bk and shw his 🤬 about skhuna's past Ahhh 🤔🤔
Hopefully end is going well but nw a tough situation of skhna lfe evr she has to fce🤔🤔